پاکستان کے’آئینی راجواڑے’ اور راجے مہاراجے !

Date:

ایک زمانہ تھا جب وطن عزیز کی شناخت بے آئین سرزمین کی تھی۔ پھر آئین بن گیا۔ پھر اسے بار بار توڑنے اور بنانے کے تجربات بھی کیے جاتے رہے۔ موجودہ آئین جسے 1973 میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا۔ اس کی تخلیق کاری کا کریڈٹ لینے والے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے خود ہی اس پرپے در پے سات وار کر کے اپنی ضرورت و سہولت کے لیےسات ترامیم کر ڈالیں۔

وجہ صاف تھی کہ انہیں بھی ماضی کے فوجی آمروں کی طرح ایسا آئین چاہیے تھا جو ان کے مفادات کا محافظ ہو۔ ان کے لیے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن کر بروئے کار رہے۔ اسی مفاد پرستانہ سوچ کے باعث 1973 کے اس آئین کے بعض آرٹیکل آج تک عملی طور پر بروئے کار نہیں لائے گئے۔ آئین کے ان آرٹیکلز کی عملداری حکمران طبقے، اشرافیہ ، سیاسی و غیر سیاسی قیادتوں کو اپنے اور اپنے طبقے کے حق میں نظر نہیں آتیں۔

اس کے علاوہ بھی ایمر جنسی کے نفاذ اور آئین معطلی کااہتمام کیا جاتا رہا۔مگر آئین کی جو بے توقیری اور پامالی کا جو عملی انداز مذکورہ بالا صورتوں سے ماورا رہے وہ آج بھی جاری ہے۔ آئین کی اس بے توقیری کی جڑیں عدلیہ کے نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے تاریخی فیصلوں سے جا ملتی ہیں۔ جو آئین کی بالا دستی کے بجائے ضرورتوں کی بالا دستی کے تابع کیے جاتے رہے ۔ جسٹس منیر سے لے کر حالیہ برسوں میں ایوانہائے عدل کے کئی بڑے نام اس چھوٹے کام کے لیے کام آتے رہے۔

اسی سبب آئین سے انحراف کی بد ترین مثالیں آئےروز سامنے آتی ہیں۔ ملک کے آئینی ادارے اپنے منہ زور سربراہان کی وجہ سے آئینی اداروں سے زیادہ ‘آئینی راجواڑوں’ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ان ‘آئینی راجواڑوں ‘کے سربراہان بظاہر آئین کے مطابق بنائے جاتے رہے لیکن بباطن ان اہم تقرریوں میں ذاتی و گروہی مفادات پیش نظر رہے ۔ اس لیے آئینی اداروں پر فائز ہونے والے آئینی سربراہان جلد ہی راجوں مہاراجوں کا روپ دھارتے رہے۔ یوں ان کی خواہش قانون اور ان کا حکم آئین سے بالاتر قرار پاتا رہا۔ یہ سلسلہ آج بھی جارہی ہے۔ کہیں آئین کی تاویل کے نام پر ، کہیں تشریح کے نام پر اور کہیں وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ آئین ان کے سامنے موم کی ناک ہے۔ جسے جب چاہا کاٹ دیا گیا اور جدھر چاہا موڑ دیا گیا۔

قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف اس ناطے اہم ترین ‘آئینی راجواڑے ‘ کے سربراہ ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے بدلتے مؤقف، فیصلوں اور عمل نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ وہ محض نام کے راجے نہیں ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے معاملے میں انہوں نے اپنے ادل بدل ہوتے موقف اور فیصلوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے لیے قومی اسمبلی کی حیثیت ایک ‘راجواڑے ‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ پہلے استعفوں کو آئینی تقاضے کے تحت ہی منظور کرنے پر اصرار کا مسلسل اظہار اور پھر یکا یک من مانی کی یلغار۔ یہ انداز یقیناً کسی راجواڑے کے راجے کا ہی ہو سکتا ہے۔

ملک کے اہم ترین ‘ آئینی و پارلیمانی راجواڑے ‘کے سربراہ راجہ پرویز اشرف کے دستخطوں سے ہی راجہ ریاض احمد کو قائد حزب اختلاف مقرر کیا گیا۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ راجہ ریاض احمد کو یہ اعزاز ملنا غیر ممکن تھا اگر سالہا سال سے قومی اسمبلی کو ایک’ آئینی راجواڑے ‘کے طور پر چلانے کی ریاضت اور روایت اس پختگی کو نہ پہنچ چکی ہوتی۔ تازہ اطلاعات ہیں کہ راجہ ریاض احمد کے لیے خطرہ پیدا کیا جا رہا ہے اور ممکن ہے آنے والے چند دنوں میں ‘راجواڑے ‘ کے اہم منصب سے محروم کر دیے جائیں ۔ ان کی جگہ کوئی نیا مہاراجہ یا مہارانی ان کی جگہ لے لےکہ پی ٹی آئی نے اس اہم ترین ‘آئینی و پارلیمانی راجواڑے’ پر پھر سے جزوی قبضے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ لیکن راجہ پرویز اشرف نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو ایوان کے لیے اجنبی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو اپنے راجواڑے کے ساے انداز میں چلانے کا دھندا جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسی سبب راجہ ریاض کی قومی اسمبلی کے اندر راجہ گیری کو لاحق خطرہ ٹل جانے کا امکان ہے۔

پاک وطن کے انہی آئینی راجواڑوں میں سے ایک اہم راجواڑہ ‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے’ ۔ یہ کچھ عرصے سے عملی طو پر ‘احتساب کمیشن آف پاکستان ‘کے انداز سے کام کر رہا ہے۔ جنگل کے بادشاہ کی طرح انڈہ یا بچہ دینے میں پوری طرح بااختیار ہے۔ توہین عدالت کے جس قانون کو عدالتیں بھی بعض اوقات احتیاط سے استعمال کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسی قانون کے وسیع استعمال کو اپنے معمولات میں باضابطہ شامل کر لیا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اپنے کام کے معیار یا اجلے کردار کی بنیاد پرنہیں بلکہ بہت ساری دوسری شخصیات اور اداروں کی طرح یہاں بھی اپنے طاقت و اختیار کی بنیاد پر عزت کروانے کو ہی واحد ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ عزت کروانے کے اس شوق کی خاطر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 میں تبدیلی کی تیاری کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ کہ شاید اس طرح ریاستی و حکومتی ‘ راجواڑوں اور ان کے مہاراجوں کی عزت کروائی جا سکے گی۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام سے مشہور اس ‘ آئینی راجواڑے’ کی باگ ڈور راجہ سکندر سلطان کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے زیر قیادت اس ‘آئینی راجواڑے ‘ بارے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ ‘الیکشن کمیشن سوائے الیکشن کروانے کے ہر کام کر رہا ہے۔’ ا س کی ایک وجہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوامیں نگران حکومتوں کی تشکیل کے لیے گورنر صاحبان کو مکمل چھوٹ دیے رکھنا بھی بنی ہے۔ کابیناؤں کے ارکان میں کیا کیا نگینے اور نمونے لیے گئے ہیں اس پر زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ میں ایک نام رحمت سلام خٹک کا کافی ہے۔ ان کے بارے میں خبر سامنے آئی ہے کہ موصوف کئی سال پہلے انتقال کر چکے تھے۔ پھر انہوں نے انتقال کے بعد اپنے علاقے میں اپنی خبر بھی بنوادی تھی۔ ماشاء اللہ اب صوبائی نگران کابینہ کا حصہ ہیں۔

دونوں نگران صوبائی حکومتوں نے جس طرح آتے ہی بیوروکریسی میں تبدیلیاں کیں۔ اس رفتار سے وسیم اکرم پلس بھی شاید نہیں کر پائے تھے۔ یقیناً اس عمل کو بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اشیرباد حاصل ہونی چاہیے۔ صوبائی حکومتیں ایسی محنتی اور یکسو پائی گئی ہیں کہ وہ پوری دلجمعی سے اپنا کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس لیے 90 روز میں انتخابات کے آئینی تقاضے ایسے معاملے سے خود کو مکمل الگ رکھنے پر مائل ہیں۔ تاکہ مسلسل قومی خدمت کرتے کرتے خادم عوام قرار پا سکیں۔ الیکشن کمیشن کے اس’ آئینی راجواڑے ‘ کی فصیل اس قدر مضبوط ہے کہ صدر مملکت کابھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی قابل قبول نہیں۔

یادش بخیر امارات مکانی جنرل قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے کھلا اعتراف کر گئے تھے کہ ان کا ادارہ آئین اور قانون کے برعکس سیاسی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ مگر اب فروری 2021 سے غیر سیاسی ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ یقیناً یہ انکشاف تھا ، نہ اس کے ساتھ کوئی حرف ندامت تھا۔ اب تک ہم نےصرف بچوں کے غیر سیاسی ہونے کا سن رکھا تھا۔ اس لیے کسی نئے دعوے پر یقین آنے میں دیر لگے گی۔کیونکہ اس ‘ آئینی و فوجی راجواڑے’ میں تو جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک کئی سربراہان اپنی مدت ملازمت سے کہیں زیادہ عرصے تک سیاسی خدمات انجام دیتے رہے ، مگر کسی کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔

اور تو اور ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر براجمان اور سپریم کمانڈر ڈاکٹر عارف علوی پربھی حکمران اتحاد یہی الزامات عائد کرتا ہے کہ وہ بھی پی ٹی آئی کے ایک کارکن کے انداز میں ایوان صدر کو چلا رہے ہیں۔ یقیناً ملک کے ‘آئینی راجواڑوں’ میں ایوان صدر بھی طویل عرصے سے سب سے بڑے’ آئینی راجواڑے’ کے طور پر موجود رہا ہے۔ اسی سب سے بڑے’ راجواڑے ‘ میں آصف علی زرداری براجمان رہے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف بھی اس’آئینی راجواڑے ‘پر قابض رہ چکے ہیں۔ تمام صوبوں کے گورنر ہاوسز بھی چھوٹے ‘ راجواڑے ‘ سہی اپنی اہمیت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

خود حکومت اور حکومت میں شامل پی ڈی ایم کے علاوہ پیپلز پارٹی نے بھی کامل اتفاق کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئینی تقاضے کے تحت ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لینا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بلوں کی منظوری سے لے کر منی بجٹ کی منظوری تک حکمران اتحاد کے بڑے اسی ‘اپروچ ‘کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تو حکومت اور کابینہ بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح آئینی راجواڑے کے انداز میں کام کر رہے ہیں۔ کہ جب تک ملک میں آئین کی بالادستی کا کلی تصور بروئے کار نہیں لایا جاتا ۔ آئین کے بعض آرٹیکلز کو قبول اور بعض کو رد کرنے کا وطیرہ تبدیل نہیں کر لیا جاتا۔ آئینی کی من مانی تاویلوں اور تعبیروں کے رواج کو روک نہیں دیا جاتا ملک میں ‘ آئینی راجواڑے’ اسی طرح کے راجوں مہاراجوں کی آماجگاہوں کی صورت آئین کے مذاق کا اہتمام کرتے رہیں گے۔ جیسا کہ تازہ واقعہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا عدالتی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے بحال شدہ ارکان اسمبلی کو اجلاس میں آنے کی اجازت دینے سے کھلے کے انکار کی صورت سامنے آگیا ہے۔

Share post:

Subscribe

Popular

More like this
Related