اسٹیٹ بینک پاکستان نے شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعلان کے بعد شرح سود تین فیصد اضافے کے بعد 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 1996 کے بعد بلندترین سطح ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنے اعلامیے میں بتایا ہے کہ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ مہنگائی اور حالیہ بیرونی و مالی توازن میں بگاڑ کی عکاسی کرتا ہے، ایم پی سی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ افراط زر کو درمیانی مدت کے لیے 5 سے 7 فیصد رکھنے کے لیے سخت پالیسی کی ضرورت ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایم پی سی کے خیال میں جاری کھاتوں کے خسارے میں کمی ضروری ہے لیکن اس کے لیے بیرونی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ اگے چند ماہ میں جب ان تبدیلیوں کا اثر سامنے آئے گا تو مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوگی جو کہ بتدریج ہوگی۔ اس سال اوسط مہنگائی متوقع طور پر 27-29 فیصد کی حدود میں ہوگی جبکہ نومبر 2022ء میں 21-23 فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
اعلامیے کے مطابق ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی کے باوجود کمزوریاں برقرار ہیں۔ جنوری 2023ء میں جاری کھاتے کا خسارہ گر کر 242 ملین ڈالر رہ گیا جو مارچ 2021ء سے اب تک پست ترین سطح ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر جاری کھاتے کا خسارہ، جو جولائی تا جنوری مالی سال 23ء میں 3.8 ارب ڈالر تھا، گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 67 فیصد کم ہے۔
اس سے قبل اسٹیٹ بینک نے بتایا تھا کہ ایم پی سی کا اجلاس 2 مارچ کو منعقد ہو گا۔
اس سے قبل 23 جنوری کو شرح سود میں اضافہ کر کے اسے 16 فیصد سے 17 فیصد کر دیا گیا تھا۔