سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے بینچز میں تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سماعت سے انکار کر دیا۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم شفافیت چاہتے ہیں، اگر رجسٹرار کیس ایک بینچ سے دوسرے میں منتقل کر دے تو شفافیت کیسے ہو گی؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں، پانچ برس بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہ چکا ہوں، لگتا ہے رجسٹرار جج سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں 2010 کے کیسز نہیں سن سکتا کیونکہ رجسٹرار سماعت کے لیے کیس مقرر کرتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا میں فون کر کے رجسٹرار کو کہہ سکتا ہوں کہ فلاں کیس فلاں بینچ میں لگا دیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ ججز کے بینچ اسٹاف افسر چلاتا ہے، پوری دنیا اس کیس کو دیکھ رہی ہے، اپنا مؤقف سوچ کر بتائیں۔
انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نوٹ دکھائیں بینچ کیوں تبدیل کیا ؟ دنیا سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے دستک دیتی ہے، کیا رجسڑار صاحب شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، مقدمات کی ردو بدل سے آدھا انصاف تو ختم ہو جاتا ہے۔
رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی نے کہا کہ کیس مینجمنٹ کی سفارشات 2 جولائی 2022 سے چیف جسٹس کے آفس میں زیر غور ہیں۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کی منظوری سے ہی مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے بھی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیسز فکس کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
بعدازاں عدالت کے طلب کرنے پر رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی اور ایڈیشنل رجسٹرار عدالت میں پیش ہوئے تو سپریم کورٹ نے زیر التوا تمام پرانے مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔