حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔
گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے جو 113 فیصد ہے جس سے حکومت چھ ماہ میں صارفین سے 310 ارب روپیہ اضافی وصول کر سکے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے حکومت ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے شہریوں پر مجموعی طور پر 736 ارب روپے کا بوجھ ڈالنے جا رہی ہے۔
معاشی ماہرین اس بات پر تنقید کر رہے ہیں کہ حکومت عوام پر تو ٹیکسوں کی بھرمار کر رہی ہے لیکن وہ نہ ہی کابینہ کا حجم کم کر رہی ہے اور نہ ہی تاجروں یا اسٹاک مارکیٹ پر ٹیکس عائد کر رہی ہے۔
گیس کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیبنٹ کی اکنامک کورآڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، اس کے مطابق ماہانہ چار کیوبک میٹر سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے قیمتوں میں 113 فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا۔
تجارتی صارفین، بجلی پیدا کرنے والے اور کھاد کے کارخانے، سیمنٹ برآمد کرنے والے، عام صنعتیں اور سی این جی اسٹیشن، تمام پر 10.4 فیصد سے 105 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔
حکومت کے مطابق قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ گیس مہیا کرنے والی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے جن کے محاصل میں 2013 سے اب تک 577 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومت پہلے ہی بجلی کی قیمتوں میں 3.30 روپے سے 15.52 روپے فی یونٹ کا اضافہ کر چکی ہے جن سے جون تک 237 ارب روپے اضافی اکٹھے ہوں گے، اسی طرح جون تک ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے عوام پر 189 ارب روپے کا بوجھ ڈالا جا چکا ہے۔
مجموعی طور پر عوام کو اگلے چھ ماہ میں 736 ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا جس سے پہلے ہی تاریخ کے بدترین افراط زر میں غیرمعمولی اضافہ ہو گا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے میں کئی ماہ تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے یہ تمام بوجھ عوام پر اکٹھا ڈالا جا رہا ہے۔