عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے مذاکرات کے دوران سیاسی اتفاق رائے کا عندیہ دیتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حزب اختلاف مشکل معاشی فیصلوں کے رستے میں رکاوٹیں ڈال سکتی ہے۔
آئی ایم ایف مشن کے چیف ناتھن پورٹر نے مذاکرات کے دوران مشکل معاشی فیصلوں کے حوالے سے حزب اختلاف کے کردار پر سوال اٹھا دیا۔
ذرائع کے مطابق مشن چیف کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف پیکج کی بحالی کے لیے جس قسم کے ٹیکس عائد کرنے جا رہی ہے اس میں حزب اختلاف روڑے اٹکا سکتی ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف مشن کو یقین دلایا کہ حکومت سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور وہ نئے ٹیکس عائد کرتے وقت تمام قانونی اور سیاسی چیلنجز کو مدنظر رکھے گی۔
اگرچہ حکومت اس حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ پارلیمنٹ سے قانون بھی منظور کرا سکتی ہے۔
پارلیمنٹ سے قانون کی منظوری کا عمل مکمل ہونے میں 14 دن لگ سکتے ہیں جس کے بعد نئے ٹیکس نافذ کیے جا سکیں گے۔
ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کے منفی کردار کے متعلق بھی بتایا جو انہوں نے ماضی میں معیشت کو پٹڑی سے ہٹانے میں ادا کیا تھا۔
یاد رہے کہ عمران خان نے حالیہ بیانات میں آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ انہوں نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اسے ناگزیر بھی قرار دیا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام 6.5 ارب ڈالر پر مشتمل تھا جس میں سے 3.5 ڈالر ابھی پاکستان کو ملنے ہیں، پروگرام کی معیاد رواں برس جون میں مکمل ہونی تھی، تاہم 9ویں جائزے میں دیر ہونے کی وجہ سے اب یہ نومبر 2022 کے پہلے ہفتے میں مکمل ہو پائے گا۔
ابھی تک فریقین نے 9ویں اور 10 ویں جائزے کو اکٹھا کرنے کے متعلق کوئی بات نہیں کی، اگر ایسا ہو سکے تو پاکستان کو مزید 800 ملین ڈالر کی قسط بھی مل سکتی ہے۔