پاکستان کی بین الاقوامی سطح کی بہترین انفارمیشن کمپنی دی ریسورس گروپ (ٹی آر جی) پاکستان نے کمپنی پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔
ٹی آر جی کی ملکیت حاصل کرنے کی کوشش میں مبینہ طور پر اس کے سابق سی ای او محمد ضیااللہ خان چشتی اور جہانگیر صدیقی گروپ شامل تھے۔
اکتوبر میں ٹی آر جی پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں سابق سی ای او ضیا چشتی، جہانگیر صدیقی اینڈ کو لمیٹڈ اور 12 دیگر اشخاص کے خلاف درخواست دائر کی جس میں الزام لگایا گیا کہ یہ افراد خاموشی سے اس کے حصص خرید کر رہے ہیں تاکہ کمپنی کے بورڈ پر قبضہ کیا جا سکے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ سابق سی ای او اور جے ایس گروپ کس لیے ٹی آر جی پاکستان پر مخاصمانہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حصص خریدنے والوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
سرمایہ کار کے مطابق سابق سی ای او کو علم ہے کہ ایک سابق ملازمہ کے ساتھ جنسی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ان کی شہرت داغدار ہو چکی ہے۔
پاکستانی نژاد امریکی ضیا چشتی ایک کروڑ پتی کاروباری ہیں جو اپنے کامیاب منصوبوں کی وجہ سے ایک دور میں پاکستان اور امریکہ کی ٹیک کی دنیا میں بطور مثال پیش کیے جاتے تھے۔
انہوں نے پاکستان میں ایک کاروبار قائم کیا جس نے بعد ازاں بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا، انہوں نے ایک ڈینٹل بریسز کا کاروبار بھی شروع کیا جس کی قدر اب 15 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے 2001 میں دی ریسورس گروپ انٹرنیشنل لمیٹڈ (ٹی آر جی آئی ایل) کی بنیاد ڈالی جس کے لیے ابتدائی سطح پر ٹی آر جی پاکستان نے سرمایہ فراہم کیا۔
بعد ازاں یہ کمپنی عالمی سطح کی ٹیکنالوجی ہولڈنگ کمپنی کی شکل اختیار کر گئی، اس کے دنیا بھر میں 35 ہزار ملازم تھے جن میں سے 8000 پاکستان میں موجود تھے۔
یہ کمپنی ڈالرز کے لیے ترستے پاکستان کو برآمدات کی مد میں سالانہ 100 ملین ڈالر کی ترسیلات زر فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ویب سائیٹ کے مطابق اس کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن ڈی سی میں ہے اور اس کی 8 ذیلی کمپنیاں ہیں۔
جنسی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 51 سالہ ضیا چشتی کو ٹی آر جی اور اس کی تمام ذیلی کمپنیوں کے انتظامی عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا، اس میں ایفینیٹی کمپنی بھی شامل تھی جس کے وہ سی ای او تھے۔
مقدمے کی تفصیلات
ٹی آر جی پاکستان، اس کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کے چئیرمین محمد خائشگی اور چیف ایگزیکٹر آفیسر حسنین اسلم نے جہانگیر صدیقی اینڈ کو لمیٹڈ، ضیا چشتی اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرایا جس میں الزام عائد کیا کہ ان تمام افراد نے خاموشی سے کمپنی کے حصص خرید کیے ہیں تاکہ کمپنی پر قبضہ کیا جا سکے۔
مقدمہ درج کرنے کے بعد ٹی آر جی پاکستان کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سٹے آرڈر مل گیا جس کے مطابق 30 فیصد سے زائد حصص رکھنے والے افراد کو ووٹنگ کنٹرول حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔
ٹی آر جی کے مقدمے کی تفصیلات ہوشربا ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک میں کس طرح بااثر کاروباری افراد دھوکہ دہی سے قواعد کی نفی کرتے ہیں اور بعض اوقات نہ صرف ان قواعد کو اپنے مفاد میں استعمال کر لیتے ہیں بلکہ نظام میں موجود خلا سے فائدہ اٹھا کر اپنے مشکوک سودوں کو کامیاب بھی کرا لیتے ہیں۔
ٹی آر جی پاکستان نے جہانگیر صدیقی اینڈ کو لمیٹڈ اور ضیا چشتی کے علاوہ جے ایس بینک لمیٹڈ، جے ایس انفوکام لمیٹڈ، انرجی انفراسٹرکچر ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ، جے ایس گلوبل کیپٹل لمیٹڈ، علی جہانگیر صدیقی، اسد ناصر، سلیمان لالانی، عابد حسین، سارا پوبرسکن، ڈی جے ایم سیکیورٹیز لمیٹڈ اور الحبیب کیپٹل مارکیٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کو بھی کیس میں فریق بنایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مقدمے میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کو بھی مقدمے میں پروفارما پارٹی کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد اور ادارے مبینہ طور پر ٹی آر جی آئی ایل کے سابق سی ای او ضیا چشتی کے کہنے پر کام کر رہے ہیں جنہیں امریکہ میں ایک پورٹ فولیو کمپنی کی ملازمہ پر جنسی حملے کے الزام میں ثالثی میں سزا سنائی گئی تھی جب وہ کمپنی کے سی ای او اور چئیرمین کے طور پر کام کر رہے تھے۔
ٹی آر جی کی انتظامیہ نے الزام عائد کیا کہ جنسی حملے میں سزا کی بات افشا ہونے کے بعد ضیا چشتی نے نومبر میں ٹی آر جی آئی ایل، ٹی آرجی پاکستان اور دیگر ذیلی کمپنیوں سے استعفیٰ دے دیا لیکن اب وہ دوبارہ ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مارکیٹ میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ ضیا چشتی، ان کی اہلیہ سارا پوبرسکن اور جے ایس گروپ اور اس کی ذیلی کمپنیوں نے سیکیورٹیز ایکٹ 2015 اور لسٹڈ کمپنیز ریگولیشنز 2017 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی آر جی پاکستان کے حصص خرید کیے ہیں۔
انہوں نے خاموشی سے ٹی آر جی پاکستان کے 30 فیصد سے زائد حصص خرید کر لیے ہیں جبکہ قوانین کے تحت انہیں اس خرید کا اعلان کرنا چاہیئے تھا۔
ٹی آر جی کی درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جہانگیر صدیقی اینڈ کو لمیٹڈ، اس کی ذیلی کمپنیاں اور علی جہانگیر صدیقی کی اس انداز میں کمپنیوں پر قبضہ کرنے کی ایک تاریخ ہے جیسا کہ 2019-20 میں ہم ٹی وی کے کیس میں ہوا تھا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان کمپنی کے معاملات میں مسلسل مداخلت کرتے رہے ہیں اور ایس ای سی پی کے سامنے غیراہم معاملات میں شکایات کا انبار لگاتے رہے ہیں جو ان کی بات مان کر جلد بازی میں نوٹس بھیجتی رہی ہے۔
ایک پاکستانی کی کامیابی کی داستان
ٹی آر جی پاکستان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ سابق سی ای او کی شہرت کی وجہ سے ان کا کمپنی سے منسلک ہونا نقصان دہ ہے جس سے کمپنی کے حصص کی قیمت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ٹی آر جی کا بنیادی کاروبار ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سے منسلک خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں میں بالواسطہ سرمایہ کاری کرنا ہے، اس کے فارچون 500 کلائنٹس بنیادی طور پر امریکی ہیں، ان کمپنیوں کا سالانہ ریوینیو تقریباً 800 ملین ڈالر ہے۔
ٹی آر جی اور ٹی آر جی آئی ایل عالمی سطح پر پاکستان کی کامیابی کا شاہکار ہیں، ٹی آر جی پاکستان کے حصص رکھنے والے افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے جن میں ملکی و غیرملکی عام لوگ اور اداروں کے سرمایہ کار شامل ہیں۔
نومبر 2022 کے آخر تک ٹی آر جی کے 545.4 ملین حصص کی قیمت مجموعی طور پر تقریباً 80.1 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی، 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران مقامی و غیرملکی سرمایہ کار ٹی آر جی کے تقریباً 44.2 فیصد حصص کے مالک تھے۔
ضیا چشتی کا جنسی اسکینڈل
ضیا چشتی 1971 میں امریکہ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ پاکستانی جبکہ والد امریکی تھے، نومبر 2021 کے جنسی اسکینڈل سے قبل تک ان کا کیرئیر بہت شاندار رہا۔
ٹاٹانیا سپوٹس ووڈ نامی قانون کی طالبہ، جو کہ ضیا چشتی کی کمپنی ایفینٹی کی سابقہ ملازم تھیں، نے ان کے خلاف لرزا دینے والے الزام عائد کیے جن کے مطابق 2017 کے برازیل کے کاروباری دورے کے دوران انہیں جنسی زیادتی، ہراسانی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
23 سالہ ٹاٹانیا نے امریکی کانگریس کی کمیٹی کی سماعت کے دوران ضیا چشتی کے خلاف گواہی دی، میڈیا کے مطابق یہ کمیٹی کمپنیوں کے معاہدوں میں شامل ثالثی کی دفعات اور ان کے اثرات کی تفتیش کر رہی تھی۔ ان اثرات میں جنسی ہراسانی اور دیگر جرائم شامل تھے۔
ٹاٹانیا نے گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ چشتی نے برازیل کے ایک دورے کے دوران ان پر جنسی حملہ کیا تھا اور پھر ثالثی کی درخواست کے ذریعے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی۔
اس مبینہ جنسی حملے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے تصاویر بھی پیش کیں، میڈیا کے مطابق انہوں نے بتایا کہ میرا جسم خراشوں، زخموں اور نیل سے بھرا پڑا تھا، میری گردن کے گرد نشانات تھے جن سے محسوس ہوتا تھا جیسے میری گردن دبائی گئی ہو، میرے سر پر ایک گومڑ تھا جبکہ ایک آنکھ کالی پڑ چکی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ 2016 میں دبئی کے دورے میں ضیا چشتی نے انہیں دیگر ساتھیوں کے سامنے پکڑ لیا تھا اور ایک ساتھی پر حملہ بھی کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ضیا چشتی میرے والد کا کاروباری ساتھی اور دوست تھے جس کے ساتھ پہلی ملاقات کے وقت میری عمر 12، 13 برس تھی۔
ٹاٹانیا نے مزید بتایا کہ جب میں کالج میں پڑھ رہی تھیں تو اس وقت ضیا چشتی کی عمر 43 برس تھی اور انہوں نے مجھے ایک سکائی ٹرپ پر مدعو کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ضیا چشتی مسلسل 9 ماہ میرے پیچھے پڑا رہا اور آخر میں اس کے ساتھ ڈیٹ کرنے پہ تیار ہو گئی لیکن کچھ عرصہ اکٹھے گزارنے کے بعد میں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔
ٹاٹانیا سپوٹس ووڈ نے گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ چند ماہ بعد چشتی نے انہیں کمپنی کا حصہ بننے کی دعوت دی اور مستقبل کے ایک شاندار کیرئیر کی تصویر کشی کی، ضیا چشتی نے انہیں یقین دلایا کہ وہ جواب میں کسی قسم کی جنسی نوازشات کی توقع نہیں کرتے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنی کا حصہ بننے کے بعد چشتی نے جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے مجھے ہراساں کرنا اور دیگر ملازموں کے سامنے میری توہین کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور آخرکار ملازمت ختم ہونے کے خوف سے میں نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
مزید گواہی دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اس کے کمرے میں چلی گئیں، چشتی جنسی عمل کے دوران ان کے ساتھ مار پیٹ کرتا رہا۔
جب ٹاٹانیا سپوٹس ووڈ کی شہادت میڈیا تک پہنچی تو افینیٹی کے بورڈ آف ڈائرکٹرز نے اعلان کیا کہ ضیا چشتی نے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، بعد ازاں انہیں ٹی آر جی پاکستان اور ٹی آر جی آئی ایل سے بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
ضیا چشتی نے تمام الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔
مارچ 2022 میں صدر بائیڈن نے ایک قانون پر دستخط کیے جس کے ذریعے جنسی ہراسانی اور جنسی حملے کی صورت میں ملازمین کی خفیہ ثالثی کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی، بل پر دستخط کی تقریب کے وقت ٹاٹانیا سپوٹس ووڈ صدر بائیڈن کے ساتھ کھڑی تھیں۔
کمپنی پر قبضہ کرنے کی کوشش
ٹی آر جی کے ریکارڈ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 30 ستمبر 2022 کو جے ایس گروپ مجموعی طور پر کمپنی کے 13.8 فیصد حصص کا مالک ہے جبکہ ضیا چشتی کے پاس 15.9 فیصد حصص موجود ہیں۔
ضیا چشتی کی اہلیہ سارا پوبرسکن نے ستمبر 2022 میں ٹی آر جی پاکستان کے تقریباً 20.8 ملین حصص خرید کیے جو کمپنی کے شئیرز کا 3.8 فیصد بنتے ہیں۔
کمپنی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ 2015 کے ایکٹ اور 2017 کے قواعد کی خلاف ورزی ہے، ضیا چشتی اور ان کی اہلیہ کے پاس ٹی آر جی کے 19.7 فیصد حصص موجود ہیں۔
کمپنی کی درخواست میں ڈی جے ایم سیکیورٹیز کو بھی فریق بنایا گیا ہے جس کے پاس 30 ستمبر 2022 تک 2.1 ملین شئیرز موجود ہیں جو مجموعی حصص کا 0.4 فیصد بنتے ہیں، یہ بروکریج ہاؤس سارا پوبرسکن کے لیے سیکیورٹیز مینیجر کا کام بھی کرتا ہے۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈی جے ایم سیکیورٹیز نے سارا پوبرسکن کو رقوم فراہم کی ہیں جس سے ان کی کمپنی پر قبضہ کرنے کے عمل میں شمولیت کی تصدیق ہوتی ہے۔
الحبیب کیپٹل مارکیٹس پرائیویٹ لمیٹڈ ضیا چشتی کی اہلیہ کے سیکیورٹیز مینیجر کے طور پر کام کرتی ہے، کراچی کے اس بروکریج ہاؤس کے پاس 30 ستمبر 2022 تک ٹی آر جی پاکستان کے 2.2 ملین یا 0.4 فیصد حصص موجود تھے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الحبیب کیپٹل مارکیٹس اپنے بینک الحبیب کے ذریعے ضیا چشتی کی اہلیہ کو بالواسطہ طور پر رقوم فراہم کرتا ہے جس سے اس کی مخاصمانہ قبضہ کرنے کی کوششوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
ٹی آر جی پاکستان کے مطابق ایس ای سی پی کو بطور ریگولیٹری ادارے کے چشتی گروپ کے غیرقانونی اقدامات کا ادراک ہونا چاہیئے تھا لیکن اس نے بھی قواعد کی کھلی خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند رکھیں اور کمپنی کے خلاف بے بنیاد شکایات کو اہمیت دیتا رہا۔
لسٹڈ کمپنی کے حصص کو ظاہر کرنا لازم ہے
ٹی آر جی پاکستان کی درخواست میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ ڈائرکٹرز اور بڑی تعداد میں حصص رکھنے والے افراد کو لسٹڈ کمپنی کے شئیرز کی ملکیت ظاہر کرنا پڑتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ڈائرکٹر، ایگزیکٹو ڈائرکٹر اور بڑی تعداد میں حصص رکھنے والے افراد کو کمپنی کو تحریری نوٹس دینا ہوتا ہے جس میں حصص کے سودوں کی مکمل تفصیل دینی ہوتی ہے، بینیفشل اونرشپ کی صورت میں رقم، اس کی تفصیل اور خریداری کی تاریخ کو ظاہر کرنا لازم ہے۔
کسی ڈائرکٹر، ایگزیکٹو آفس یا بڑی تعداد میں حصص خرید کرنے والے کی بینیفشل اونرشپ میں ڈائرکٹر کی اہلیہ، چھوٹے بیٹے یا بیٹی جو کہ سوتیلا بیٹا یا بیٹی بھی ہو سکتی ہیں، شامل ہیں، یہی معلومات ایس ای سی پی اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بھی فراہم کرنا لازم ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایس ای سی پی اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا فرض ہے کہ وہ لسٹڈ کمپنی کی سیکیورٹیز کی تجارت میں شفافیت اور حصص رکھنے والوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔
قانون کے مطابق اگر کوئی ووٹنگ شئیرز خرید کرتا ہے یا ایک لسٹڈ کمپنی میں 10 فیصد سے زیادہ ووٹنگ شئیرز خریدتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ کمپنی کی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو اپنے شئیرہولڈنگ کو ظاہر کرے، یہ اطلاع ووٹنگ شئیرز ملنے کی اطلاع ملنے یا ووٹنگ شئیرز کے حصول کے بعد دو دن میں دینی لازم ہے۔
شئیرہولڈنگ ظاہر نہیں کی گئی
12 جون 2015 کو جے ایس گروپ نے ابتدائی طور پر مطلع کیا کہ اس نے ٹی آر جی پاکستان کے 10.6 فیصد شئیرز خرید کیے ہیں، اس کے بعد قانونی طور پر وہ پابند تھے کہ ہر بار نئے شئیر خریدتے وقت انہیں ظاہر کرتے لیکن انہوں نے ستمبر 2022 کے قبل نئی خریداری کو ظاہر نہیں کیا۔
ٹی آر جی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ قانون اور اسٹاک مارکیٹ کے قواعد کی خلاف ورزی تھی کیونکہ جے ایس گروپ اس دوران مسلسل حصص خرید کرتا رہا جبکہ اس کی شئیر ہولڈنگ 10 فیصد سے زیادہ تھی۔
جے ایس گروپ کی 30 جون 2016 اور 21 دسمبر 2021 کے دوران کی گئی خریداری
ٹی آر جی کی انتظامیہ کے مطابق انہیں 2 ستمبر 2022 کو جے ایس ایفوکام لمیٹڈ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ جے ایس گروپ نے کمپنی کے 4 لاکھ 32 ہزار 158 حصص خرید کر لیے ہیں اور یہ کہ جے ایس گروپ اب مجموعی طور پر 12.75 فیصد حصص کا مالک ہے جو 6 کروڑ 95 لاکھ 48 ہزار 822 حصص بنتے ہیں۔
ٹی آر جی کا کہنا ہے کہ یہ معلومات گمراہ کن، نامکمل اور نادرست تھیں اور 5 برس دیر سے بھیج گئیں، شئیرہولڈرز کے ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ 30 ستمبر 2022 کے ریکارڈ کے مطابق جے ایس گروپ کے پاس ایک کروڑ 10 لاکھ حصص کے بجائے ایک کروڑ 66 لاکھ 43 ہزار 842 حصص موجود تھے۔
ٹی آر جی کے مطابق ضیاچشتی کی اہلیہ نے بھی ستمبر 2022 کے دوران ٹی آر جی کے تقریباً 20.8 ملین حصص خرید کیے جو 3.8 فیصد بنتے ہیں۔ دونوں کے 107.6 ملین حصص کمپنی کے مجموعی حصص کا 19.7 فیصد بنتے ہیں۔
ٹی آئی جی پاکستان کا مزید کہنا ہے کہ سارا پوبرسکن نے ستمبر اکتوبر 2022 میں مستقبل کے معاہدوں میں بھی شامل ہو گئیں تاکہ وہ کمپنی کے تقریباً 30 ملین شئیرز خرید کر سکیں، ان کی خریداری چھپانے کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے بظاہر ان کا انہیں ظاہر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔
اپنی درخواست میں کمپنی کی انتظامیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ خریداری کو مسلسل ظاہر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس کی جانچ پڑتال سے بچنا چاہتے تھے تاکہ جنسی حملے کے قصوروار شخص کی جانب سے حصص کی خریداری اور اس کے ساتھ مل کر اس کارروائی کے منفی اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔
ضیا چشتی کی اہلیہ کی جانب سے بغیر ظاہر کیے حصص کی جارحانہ خریداری کے باعث ٹی آر جی پاکستان کے حصص کی قیمت پر غیرفطری اثرات مرتب ہوئے اور یہ تیزی سے اوپر گئیں جو کہ 2015 کے ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی ہے۔
جے ایس گروپ کے 13.8 فیصد اور چشتی گروپ کے 19.7 فیصد حصص مل کر مجموعی طور پر کمپنی کے 33.5 فیصد حصص بنتے ہیں، اگر اس میں الحبیب کیپٹل مارکیٹ کے 0.4 فیصد اور ڈی جی ایم سیکیورٹیز کے 0.4 فیصد حصص شامل کیے جائیں تو یہ شرح 34.3 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
اس مرحلے پر معاملہ مقدمے کے دوسرے الزام تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹی آر جی پاکستان کو سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے سٹے آرڈر مل گیا۔
پاکستان کے ٹیک اوور رولز کے تحت کسی پارٹی کو اس وقت تک 30 فیصد سے زائد حصص رکھنے کی اجازت نہیں مل سکتی جب تک کہ وہ بقیہ حصص کے لیے پبلک ٹینڈر آفر نہیں کرتی، اس رول کی وجہ جواز اقلیتی شئیرہولڈرز کو ایک فریق کے خاموشی سے اپنا حصہ بڑھانے سے محفوظ رکھنا ہے جیسا کہ ضیا چشتی کوشش کرتے نظر آ رہے تھے۔
مقدمے میں ایسی کئی مثالیں پیش کی گئیں جن کی بنیاد پر ٹی آر جی پاکستان یقین رکھتی ہے کہ جے ایس اور ضیا چشتی سمیت دیگر گروپس مل کر کام کر رہے تھے۔
ضیاچشتی جے ایس بینک سے قرض لیتے رہے
مئی 2019 میں ضیا چشتی نے جے ایس بینک کی بحرین کی شاخ سے 7 ملین ڈالرز کے قریب قرض لیا، یہ رقم ٹی آر جی گروپ کی پورٹ فولیو کمپنی ٹی آر جی آئی ایل اور ایفینیٹی کے حصص گروی رکھ کر حاصل کی گئی۔
بینک کے پاس گروی رکھے گئے ٹی آر جی آئی ایل کے حصص کو 2022 میں ریلیز کر دیا گیا تاہم یفینیٹی کے حصص جے ایس بینک کے پاس گروی رہے۔
جس وقت ضیا چشتی نے یہ قرض حاصل کیا، انہوں نے جے ایس بینک کی بحرین میں موجود شاخ میں ٹی آر جی آئی ایل کا ایک اکاؤنٹ بھی کھلوایا جس میں انہوں نے کمپنی کی رقم میں سے 4 ملین ڈالرز جمع کرائے۔ تین سال کے عرصے میں اس رقم پر ٹی آر جی آئی ایل کو کوئی سود ادا نہیں کیا گیا۔
اس اکاؤنٹ کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیا چشتی نے جے ایس بینک سے لیے گئے قرض کو موثر انداز میں موڑا اور اسے ابتدائی طور پر ٹی آر جی آئی ایل کے ریسورسز سے فنڈ کیا گیا۔
اس وقت ضیا چشتی ٹی آر جی پاکستان کے سی ای او اور ٹی آر جی آئی ایل کے چئیرمین کے طور پر کام کر رہے تھے، یہ 2017 کے قواعد کے تحت ڈائرکٹر کے امانت دار ہونے کے فرائض کی خلاف ورزی تھی۔
ٹی آرجی پاکستان کا کہنا ہے کہ ضیا چشتی کی جانب سے قرض لیے جانے کے حالات اور اس کی ٹائم لائن خصوصی طور پر اہمیت کے حامل ہیں، مئی 2019 کے اسی مہینے میں ضیا چشتی ایفینیٹی کی سابق ملازمہ پر جنسی حملے کی ثالثی کے معاملے میں ملوث پائے گئے اور انہیں اس خاتون کو بھاری رقم ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
کمپنی کے مطابق بظاہر یہی لگتا ہے کہ جے ایس بنک سے حاصل کی گئی یہ رقم ان کے خلاف دیے گئے مالی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے استعمال کی گئی۔
ایفینیٹی کی سابق ملازمہ کی شہادت کے بعد ضیا چشتی نے جے ایس بینک سے 80 لاکھ ڈالر کا ایک اور قرض لیا گیا، اس رقم کو انہوں نے ایفینیٹی سے حاصل کیے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔
ٹی آر جی پاکستان نے مزید الزام عائد کیا کہ جے ایس بینک نے ضیا چشتی کی اہلیہ کو اضافی حصص یا مستقبل کے سودوں کے حصول کے لیے رقوم فراہم کیں۔
چشتی اور جے ایس کے درمیان مزید روابط
گزشتہ کئی برسوں سے جے ایس گلوبل کیپٹل لمیٹڈ ضیا چشتی کے سیکیورٹیز بروکر کے طور پر کام کرتا رہا ہے، انہی کے ایک اکاؤنٹ میں ٹی آر جی کے شئیرز رکھے گئے، ضیا چشتی کی اہلیہ بھی اسی کے ذریعے کاروباری سودے کرتی رہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جے ایس اور چشتی گروپ مل کر کام کرتے ہیں۔
ٹی آر جی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ثالثی کے بعد ادائیگی کے لیے ضیا چشتی نے جے ایس بینک سے قرض لیا اور اس کے بعد انہوں نے جے ایس بینک کے بانی جہانگیر صدیقی کو ایفینیٹی کے کنسلٹنٹ یا مشیر کے طور پر مقرر کیا۔
ان خدمات کے بدلے جہانگیر صدیقی کو 5 لاکھ ڈالر کی تنخواہ مقرر کی گئی مگر اس جزوقتی کام کے لیے ان کے کم سے کم اوقات کار مقرر نہیں کیے گئے اور انہوں نے ایفینیٹی کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچایا۔
اس محدود قسم کے عہدے کے لیے جہانگیر صدیقی کی تنخواہ مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ تھی حتیٰ کہ فل ٹائم ملازموں کی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی جو نہ صرف مفادات کے تصادم کی مظہر ہے بلکہ اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ دونوں کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔
ایفینیٹی میں سی ای او کے عہدے کی مدت کے دوران 2020 میں ضیا چشتی نے کمپنی کے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ خرید کیا جس کا بظاہر مقصد کاروباری سفر تھا لیکن انہوں نے کارپوریٹ کے اصولوں کے برخلاف جہانگیر صدیقی اور ان کے رشتہ داروں اور دوستوں، حتیٰ کہ ایفینیٹی کے ملازموں کو بھی یہ جیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی۔
ضیا چشتی کے بعد اس جیٹ کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والوں میں علی جہانگیر صدیقی، ان کے رشتہ دار اور ساتھی شامل تھے۔
2021 کے اواخر اور 2022 کے اوائل میں ضیا چشتی کے استعفیٰ اور ٹی آر جی پاکستان کے بورڈ کے انتخابات میڈیا کی زینت بنے رہے، ٹی آر جی کی درخواست کے مطابق کئی خبروں میں ضیا چشتی اور جے ایس گروپ کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کیا گیا۔
مارکیٹ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جے ایس گروپ اور ضیا چشتی کی مل کر ٹی آر جی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کاوشوں کا بنیادی مقصد ٹی آر جی آئی ایل کے عالمی اثاثوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم تک آف شور رسائی تھی جس سے لاکھوں ڈالر کی آمدنی متوقع تھی۔
ان تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی آر جی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کو روکنے سے شئیرہولڈرز کو یہ اطمینان حاصل ہوا ہے کہ ٹی آر جی آئی ایل کے یہ قیمتی عالمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور اس کا فائدہ تمام شئیرہولڈرز کو ہو گا۔
انسائیڈر ٹریڈنگ
ٹی آر جی پاکستان کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی، اسد ناصر اور سلیمان لالانی کی جے ایس گروپ کے ڈائرکٹرز کے طور پر ان تمام معلومات تک رسائی تھی جو عوام کی نظروں سے اوجھل تھیں۔
جے ایس اور چشتی گروپ کا مل کر ٹی آر جی پاکستان کے شئیرز خریدنے اور کمپنی، ایس ای سی پی اور اسٹاک ایکسچینج کے سامنے اسے ظاہر نہ کرنا واضح کرتا ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کی اندرونی معلومات رکھتے تھے۔
اس کے علاوہ سارا پوبرسکن کی جانب سے کمپنی کے حصص کی خرید کا ابنارمل طریقہ کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں غیرمعمولی اتار چڑھاؤ کا باعث بنا۔
معلومات کے اخفا رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جے ایس گروپ کے تین ڈائرکٹرز نے اندرونی معلومات اپنے ان دیگر شراکت داروں کے ساتھ شئیر کیں جن کے نام درخواست میں دیے گئے ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اسد ناصر اور سلیمان لالانی ایس ای سی پی کے سامنے کمپنی کے خلاف بے بنیاد شکایات پیش کرتے رہے جس کا مقصد ٹی آر جی پاکستان کی شہرت کو داغدار کرنا تھا۔
ایس ای سی پی بھی جے ایس اور چشتی گروپ کے کمپنی کے خلاف اقدامات کا نوٹس لینے کے بجائے کمپنی کو نشانہ بناتی رہی جس سے اس کی بددیانتی ظاہر ہوتی ہے۔
جے ایس گروپ کے تین ڈائرکٹرز، خصوصاً اسد ناصر، ٹی آر جی پاکستان کے خلاف خود اور وینس انٹرٹینمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے عوامی سطح پر پراپیگنڈے میں ملوث رہے۔
اس معاملے میں ٹی آر جی پاکستان نے پہلے سے ہی ایک الگ مقدمہ سندھ ہائیکورٹ میں درج کرایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں کمپنی اور اس کے میزبان یا اینکرز کو ٹی آر جی کے خلاف پروگرام کرنے سے عبوری طور پر روک دیا گیا ہے۔
ضیا چشتی نے 14 اکتوبر 2022 کو ٹی آر جی پاکستان کو نوٹس دیا کہ وہ ان کی مرضی کے آڈیٹرز اور رجسٹرار ٹرانسفر ایجنٹ مقرر کریں، ٹی آر جی کے مطابق یہ ان کی کمپنی میں اپنا اثرونفوذ ظاہر کرنے کی حکمت عملی کی مثالیں ہیں جن کا مقصد اجلاس طلب کر کے بورڈ آف ڈائرکٹرز میں تبدیلی لانا ہے۔
ٹی آر جی پاکستان نے سندھ ہائیکورٹ سے درخواست کی ہے کہ جے ایس اور چشتی گروپ نے پبلک پالیسی اور پاکستان کے قوانین خصوصاً 2015 اور 2017 کے ایکٹ کی شقوں اور 2017 کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی آر جی پاکستان کے حصص حاصل کیے ہیں۔
کمپنی نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ جے ایس گروپ اور چشتی گروپ کو کمپنی کے مزید حصص براہ راست یا بالواسطہ طور پر خرید کرنے سے مستقل بنیادوں پر روکنے کے احکامات جاری کرے اور انہیں قوانین کے برخلاف حاصل کیے گئے حصص کے ذریعے کسی قسم کے فوائد حاصل کرنے اور حقوق استعمال کرنے سے روک دے، ان فوائد اور حقوق میں حصص کا منافع، بونس حصص کا حصول اور شئیرہولڈرز یا بورڈ آف ڈائرکٹرز کے اجلاس میں شرکت شامل ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے سٹے آرڈر میں مدعا علیہان کو شئیرہولڈنگ میں 30 فیصد سے زیادہ حصص پر ووٹنگ سے روک دیا ہے۔
مارکیٹ کے مطابق عدالت کے اس عمل کے ذریعے ملک کی چند بڑی کاروباری شخصیات کے درمیان جاری لڑائی کو روک کر چھوٹے سرمایہ کاروں کو کسی حد تک سکھ کا سانس لینے کی اجازت مل گئی ہے۔
ہم اس معاملے پر کسی بھی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنے قارئین کو اس سے مطلع رکھیں گے۔
چند امریکی سی اوز جنہیں جنسی سکینڈلز کی وجہ سے عہدے چھوڑنے پڑے
مغربی ممالک کی کارپوریٹ دنیا میں جنسی ہراسانی کو کسی طور برداشت نہیں کیا جاتا اور انہیں نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ثقافتی تبدیلیوں کے اس منظر نامے میں بہت سے مظلوم کردار یکے بعد دیگرے سامنے آ کر اپنے افسروں اور ساتھی ملازمین کے ہاتھوں پیش آنے والی آزمائشوں کی داستانیں سنا رہے ہیں۔
تقریباً تمام واقعات میں کمپنی نے فوری طور پر ایسے سی ای اوز اور دیگر افسروں سے جان چھڑائی ہے جو جنسی ہراسانی میں ملوث رہے ہیں تاکہ اپنے کاروبار کو منفی اثرات سے بچایا جا سکے۔
حالیہ برسوں میں امریکی کارپوریٹ سیکٹر کے کئی بڑے گرووں کو جنسی ہراسانی کے الزامات کی وجہ سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں جبکہ می ٹو جیسی مہمیں اور مظاہروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
درج ذیل 8 سی ای اوز کی کہانیاں ہیں جنہیں جنسی ہراسانی کے الزامات یا اپنے ادارے میں ایسے واقعات کی روک تھام نہ کرنے کی وجہ سے اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
مائیک کیگنی سوشل فائنانس نامی کمپنی کے بانی اور سی ای او تھے، یہ کمپنی آن لائن قرض دیا کرتی تھی، انہیں کمپنی میں مس کنڈکٹ اور خواتین سے غیرمناسب سلوک کی مسلسل تباہ کن داستانوں کے باعث اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا۔ وہ ستمبر 2017 میں کمپنی کے بورڈ اور سی ای او کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
ٹریوس کلانک اوبر جیسی معروف کمپنی کے بانی اور سی ای او تھے، انہیں جون 2017 میں شئیر ہولڈرز کی جانب سے مسلسل دباؤ کے بعد اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا، اس کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب کمپنی کی ایک سابق انجینئر نے بلاگ کے ذریعے جسنی ہراسانی کے الزامات عائد کیے۔
ٹائمز اپ کمپنی اداروں میں غلط جنسی رویوں کی سدباب کے لیے قائم کی گئی مگر اس کی صدر اور سی ای او لیزا بارڈرز کو فروری 2019 میں اس وقت اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا جب ان کے بیٹے کے خلاف نامناسب جنسی رویوں کے الزامات لگے۔
گریویٹی پیمنٹ نامی کمپنی کے سی ای او ڈان پرائس کو اگست 2022 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، انہوں نے یہ کمپنی اپنے کالج کے دنوں میں بنائی تھی، انہیں بھی جنسی حملوں، نامناسب رویوں اور دیگر مجرمانہ الزامات کا سامنا تھا۔
لیزلے مونوس 2006 سئ سی بی ایس کے اعلیٰ ایگزیکٹو تھے، وہ دو دہائیوں سے براڈکاسٹ نیٹ ورک اور میڈیا کمپنی کی اہم ترین شخصیت تھے، انہیں ستمبر 2018 میں اس وقت استعفیٰ دینا پڑا جب جنسی حملوں اور ہراسانی کے الزامات کی خبروں کی ایک لہر ان کے خلاف ابھری۔
سکاٹ بلیک من امریکی اولمپک کمیٹی کے سی ای او تھے جنہیں لیری نسر جنسی زیادتی اسکینڈل کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، اگرچہ وہ اس میں براہ راست ملوث نہیں تھے لیکن انہیں جنسی زیادتی کے اسکینڈلز سامنے آنے کے بعد بھی مداخلت کرنے میں ہچکچاہٹ کے الزامات کا سامنا تھا۔
مس امریکہ آرگنائزیشن کے چیف ایگزیکٹو سیم ہسکل کو عامیانہ اور نامناسب زبان کے استعمال کے الزام میں دسمبر 2018 میں اپنے عہدہ چھوڑنا پڑا۔
ہالی ووڈ کے فلم پروڈیوسر ہاروی وینسٹین کو اکتوبر 2017 میں اس وقت فلم پروڈکشن کمپنی کے چئیرمین کے عہدے اور بورڈ آف ڈائرکٹرز سے مستعفی ہونا پڑا جب ان کے خلاف تسلسل سے نامناسب جنسی رویوں کے الزامات سامنے آئے۔ وہ کمپنی کے بانی بھی تھے۔
ہائپرلوپ ون کمپنی کے شریک بانی اور اوبر میں ابتدائی سرمایہ کاری کرنے والے شرون پشیوار کو اس وقت شرپا کیپٹل میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا جب ان پر نامناسب جنسی رویوں کے الزامات عائد ہوئے۔
ڈیو میکلور 500 سٹارٹ اپس کے سی ای او تھے، وہ بھی میڈیا میں جنسی اسکینڈل کے باعث اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے، جولائی 2017 میں جب نیویارک ٹائمز نے ان کے جنسی ہراسانی کے رویوں کو افشا کیا تو انہیں اس پر نہ صرف معافی مانگنا پڑی بلکہ وہ اپنی ہی قائم کردہ کمپنی سے الگ ہو گئے۔