وائٹ کالر کرائم کی چشم کشا داستان اور ریاستی اداروں کی بے بسی

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

پاکستان میں پیسہ، طاقت اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد اگر وائٹ کالر جرائم کرتے بھی ہیں تو انہیں شاذ و نادر ہی سزا ملتی ہے۔ ایسا شہبازشریف کی حکومت کی جانب سے جون 2022 میں احتساب کے قانون کے خاتمے کی اس کارروائی سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے نامزد ملزمان میں سے 90 فیصد کو فائدہ پہنچایا گیا۔

اس کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب اگست 2021 میں نیب کی طرح ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے قائم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جے ایس بینک اور اس کے سپانسرز کے ناموں کو فراڈ، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت ہونے والی کارروائی سے خارج کر دیا۔

6 جولائی 2021 کے ایف آئی اے کے خط میں، جس کی کاپی نیریٹوز کے پاس موجود ہے، جے ایس بینک، جہانگیر صدیقی کمپنی لمیٹڈ، جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور دیگر کے نام انکوائری میں شامل کیے گئے۔ خط میں ملک کے بہترین بینکوں کو کہا گیا کہ وہ 12 کمپنیوں اور افراد کے نام کھولے گئے بینک اکاؤنٹس کی مکمل تلاش کریں۔

ان کمپنیوں اور افراد میں دی سن ٹرسٹ، ایکاموتو ہولڈنگز لمیٹڈ، دی مونٹے بیلو ایس آر ایل، دی ریلیرا فائنانشل کارپ، دی انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ فار پریزرویشن آف دی ہیریٹیج، دی ایگرو لمیٹڈ، جہانگیر صدیقی اور علی جہانگیر صدیقی شامل تھے۔

14 جولائی 2021 کو ایف آئی اے نے ان تمام بینکس کو یاددہائی کے خطوط لکھے جو ان 12 کمپنیوں اور افراد کے بینک اکاؤنٹس تلاش کر رہے تھے۔ تاہم بمشکل ایک ماہ ہی گزرا تھا جب 13 اگست 2021 کو ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی نے جے ایس بینک اور اس کے سپانسرز کے نام انکوائری سے خارج کر دیے۔

تھوڑے دنوں بعد اس معاملے پر کام کرنے والے ایف آئی اے کے دو بنیادی عہدیداروں، تفتیشی افسر رمیش کمار اور بلال اسلم خان، کا بالترتیب کوئٹہ اور گلگت تبادلہ کر دیا گیا۔

ایف آئی اے کے ایک افسر، جو اس طاقتور کاروباری گروپ کے خلاف انکوائری ختم کرنے کے معاملے سے آگاہ ہیں، نے بتایا کہ صدیقی فیملی کے سابق پی ٹی آئی حکومت اور اداروں میں موجود رابطہ کاروں نے انہیں اس کیس سے نجات دلانے میں مدد فراہم کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایف آئی اے کے پاس بے شمار معلومات موجود تھیں لیکن ہمارے اعلیٰ سطح کے افسروں نے ہمیں ان کے نام انکوائری سے خارج کرنے کے احکامات دے دیے۔

 ایف آئی اے کی مذکورہ کارروائی اس وقت شروع ہوئی جب کیمن آئی لینڈز کی کانفیڈینشل فائنانشل رپورٹنگ اتھارٹی (کیفن) نے رقوم کے مشکوک تبادلے کے ایک معاملے میں علی جہانگیر صدیقی اور ان کے والد جہانگیر صدیقی کے نام دیے۔

White Collar Crime | معیشت from Narratives Magazine

16 دسمبر 2019 کو لکھے گئے ایک خط میں، جس کی کاپی نیریٹوز کے پاس موجود ہے، کیفن نے صدیقی فیملی اور ان کی کمپنیوں کی جانب سے کئی مشکوک رقوم کے لین دین کے متعلق معلومات وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والے ادارے فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈائرکٹر جنرل کو فراہم کیں۔

کیفن نے اپنے خط میں کیس کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ اس کاروباری خاندان نے اکتوبر 2011 میں دی سن ٹرسٹ اور دی اکاموتو ہولڈنگز لمیٹڈ قائم کی۔ دی سن ٹرسٹ کا قیام جہانگیر صدیقی نے خود اپنے اور علی جہانگیر صدیقی کو فائدہ پہنچانے کے لیے قائم کی۔

ان کے اکاؤنٹس ڈوشے بینک کی کیمن آئی لینڈز کی شاخ میں 2011 میں کھولے گئے، تاہم ڈوشے بینک نے اپنے بین الاقوامی آپریشنز کیمن آئی لینڈز کے بٹرفیلڈ بینک لمیٹڈ کو سونپ دیے جس نے تمام اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی۔

اس جانچ پڑتال کے دوران اس پاکستانی کاروباری خاندان کے اکاؤنٹس میں گڑبڑ پائی گئی اور بینک نے اپنی مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹ میں کیفن کو مشکوک لین دین سے آگاہ کر دیا۔

ایف ایم یو نے 31 جنوری 2020 کو یہ تمام معلومات ایک خفیہ خط کے ذریعے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چئیرمین تک پہنچا دیں، خط میں کہا گیا کہ یہ انٹیلی جنس کیفن کی جانب سے کیمن آئی لینڈز کے بٹرفیلڈ بینک میں دی سن ٹرسٹ اور اکاموتو ہولڈنگز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس کے متعلق فراہم کی گئی ہے۔

خط میں بتایا گیا کہ دی سن ٹرسٹ کو قائم کرنے اور اس سے مستفید ہونے والے جہانگیر صدیقی ہیں تاہم ان کے پوتے بھی اس ٹرسٹ سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔

صدیقی فیملی کے خلاف تباہ کن الزامات کی تحقیق کرنے والے ایف آئی اے کے دو افسروں کے تبادلوں کی طرح ایس ای سی پی کے ایک ڈائرکٹر طارق بختاور کو بھی اس وقت عہدے سے ہٹا دیا گیا جب انہوں نے کیفن کی جانب سے بھیجے گئے معاملے پر تحقیقات شروع کیں۔

یہ سب کچھ کیفن کی جانب سے صدیقی خاندان اور ان کے آف شور کاروبار میں ہونے والے مشکوک لین دین کے متعلق بے شمار معلومات کی فراہمی کے باوجود ہوتا رہا۔

ان معلومات میں بتایا گیا کہ دی سن ٹرسٹ 2017 تک علی جہانگیر صدیقی کے پاس رہا تاہم اسی برس انہوں نے خود کو ٹرسٹ سے الگ کر دیا اور جہانگیر صدیقی کے تین پوتوں کو اس کا بینفشری بنا دیا گیا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اکاموتو ہولڈنگز کے حصص کی ملکیت بھی دی سن ٹرسٹ کے پاس ہے۔

  علی جہانگیر صدیقی کے 7 جولائی 2017 کو دی سن ٹرسٹ سے علیحدگی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت سیاسی میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے تھے، اسی لیے ان کے والد نے اپنے تین پوتوں کو اس کے بینیفشری بنا دیا جن کی عمریں ایک سے دو سال کے درمیان تھیں۔

اگست 2017 میں علی جہانگیر صدیقی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حصہ بن گئے اور انہیں وزیراعظم کے مشیر خصوصی کا عہدہ دے دیا گیا جس کا سٹیٹس منسٹر آف سٹیٹ کے برابر تھا۔

چند ماہ بعد اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں امریکہ میں پاکستانی سفیر بنا دیا حالانکہ وہ اپنی ناتجربہ کاری کے باعث ایسے اعلیٰ عہدے اور حساس پوزیشن پر براجمان ہونے کے اہل نہیں تھے، اس فیصلے پر وزارت خارجہ اور حساس ادارے، جن میں پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار شامل تھے، بھی تشویش کا شکار تھے۔

بعد ازاں علی جہانگیر صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی اپنے لیے راستہ تلاش کر لیا اور اعزازی ایمبیسڈر ایٹ لارج بن گئے، ساتھ ساتھ انہوں نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ملک کی طاقتور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں بھی اپنے روابط استوار کر لیے۔

شاہد خاقان عباسی کے قریبی ساتھی بننے سے لے کر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے کیمپ کا حصہ بننے کا یہ سفر سیاسی اور کاروباری چالاکیوں کی حیران کن داستان ہے جس نے پی ٹی آئی کے اندر کئی لوگوں کو ششدر کر دیا۔

Ali Jahangir Siddiqui 1 | معیشت from Narratives Magazine
Ali Jahangir Siddiqui

کیفن کے خط میں بتایا گیا کہ دسمبر 2011 میں دی اکاموتو کمپنی کے اکاؤنٹ میں گولڈمین سائکس زیورخ کے ایک اکاؤنٹ سے 1.2 ملین ڈالر کی رقم دی ریلیرا فائنانشل کارپ کے نام سے جمع کرائی گئی۔

خط کے مطابق جہانگیر صدیقی نے ڈوشے بینک کو اپنی فاؤنڈیشن کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرنے سے انکار کر دیا، اس کے لیے انہوں نے گولڈ مین سائکس کے ساتھ رازداری کا حوالہ دیا، اس انکار کے باعث ڈوشے بینک کے عہدیداروں نے خطرے کا جھنڈا لہرا دیا اور جہانگیر صدیقی اور ان کے ساتھیوں کے اکاؤنٹس کی سخت نگرانی شروع کر دی گئی۔

کیفن کے خط کے مطابق اس وقت تک علی جہانگیر صدیقی فیملی فاؤنڈیشن کو کنٹرول کرتے تھے، ان کی فائل پر نوٹ لگا دیا گیا جس کے مطابق انہیں مطلع کر دیا گیا کہ مستقبل میں اس انداز میں کوئی بھی رقم جمع نہیں کرائی جا سکے گی، اس سے قبل اندازہ لگایا گیا تھا کہ 5 ملین سے 10 ملین ڈالر کی رقم ٹرسٹ میں جمع کرائی جائے گی۔

ایس ای سی پی کو لکھے گئے ایف ایم یو کے خط میں علی جہانگیر صدیقی کی جانب سے کم از کم 10 مشکوک لین دن کی تفصیلات بتائی گئیں، اس خط میں دی انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ فار پریزرویشن آف دی ہیریٹیج، پاکستان انٹرنیشنل کنٹینرز سمیت دیگر کمپنیوں کا ذکر بھی شامل تھا۔

ایف ایم یو نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ صدیقی خاندان کے خلاف نیب کا ادارہ غبن، انسائیڈر ٹریڈنگ اور سٹاک مینوپولیشن سمیت بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کر رہا ہے، اس لیے کیفن سے ملنے والی معلومات مزید تحقیقات کے لیے بھیجی جا رہی ہیں۔

کیمین آئی لینڈز اتھارٹیز نے لکھا کہ 2013 سے 2018 کے دوران جہانگیر صدیقی، ان کے کاروبار اور حالیہ عرصے میں علی جہانگیر صدیقی کے خلاف غبن، انسائیڈر ٹریڈنگ، سٹاک مینوپولیشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے کئی قسم کی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔

بٹرفیلڈ بینک کی مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹ کے مطابق ان کی سرگرمیوں سے متعلق الزامات 2007 تک جاتے ہیں۔

کیفن کے خط میں بتایا گیا کہ جہانگیر صدیقی اور علی جہانگیر صدیقی منی لانڈرنگ میں ملوث ہوسکتے ہیں اور ٹرسٹ سٹرکچر میں وصول کیے گئے فنڈز، جزوی یا کلی طور پر، براہ  راست یا بالواسطہ طور پر جرائم سے حاصل کردہ رقوم سے تعلق رکھتے ہیں۔

کیفن نے صدیقی خاندان اور ان کی کمپنیوں کے کاروباری مفادات کی جامع تحقیقات شروع کر دی، دستاویز کے مطابق اگرچہ کیمن آئی لینڈ اتھارٹیز کے پاس جہانگیرفیملی اور ان کی کمپنیوں کے متعلق مزید ریکارڈ موجود نہیں ہے تاہم اوپن سورس تلاش کرنے پر ان کے مشکوک ماضی کی کئی جھلکیاں نظر آ جاتی ہیں۔

کیفن کی تحقیقات اور اس کے خط میں اس بات کی تفصیلات موجود ہیں کہ کس طرح علی جہانگیر صدیقی کو ایک مقدمے میں نیب نے طلب کیا تھا جس میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008 میں ایک اطالوی کمپنی مونٹے بیلو ایس ایل آر کی خرید کے لیے 23.758 ملین یورو کی رقم کا ہیرپھیر کیا تھا۔

اس وقت علی جہانگیر صدیقی ایک سرمایہ کاری فرم ایزگرڈ نائن لمیٹڈ کے ڈائرکٹر تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر سویڈن کی فیری ٹل ایس آر ایل نامی غیرملکی کمپنی کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

نیب کا کہنا تھا کہ سودے میں استعمال ہونے والی فیری ٹل ایس آر ایل اور اس کے شئیر ہولڈز کو مشکوک لین دین کے باعث بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تحقیقات سے ایگری ٹیک لمیٹڈ کا معاملہ بھی ابھر کر سامنے آیا، اس کمپنی کے حصص مختلف مالی اور حکومتی اداروں کو مارکیٹ کے نرخوں سے زیادہ ریٹ پر فروخت کیے گئے تاکہ قرض ڈیفالٹ کو پورا کیا جا سکے جس کی وجہ سے ان اداروں کو 10 ارب روپے کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

اسی طرح ایس ای سی پی نے اپنی 2016 کی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ایزگرڈ نائن گروپ کے حصص کو مصنوعی طور پر 24 روپے سے 70 روپے تک بڑھایا گیا اور اس کی ادائیگیاں ایک بے نام پارٹی کو کی گئیں۔ لیکن ان تمام مقدمات میں سے کسی کو بھی جہانگیر صدیقی اور ان کے خاندان کے سیاسی اثرورسوخ کے باعث منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔

نیب اور ایس ای سی پی دونوں ہی ان مقدمات کو تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہے اور یہی حال ایف آئی اے کا ہوا۔

کیفن کے خط میں انکشاف کیا گیا کہ یکم دسمبر 2011 کو گولڈ مین سائکس بینک اے جی زیورخ میں اکاموتو ہولڈنگز میں ریلیرا فائنانشل کارپ کی جانب سے 1.2 ملین ڈالر کی ابتدائی رقم میں سے ساڑھے 9 لاکھ ڈالر کو کیش میں رکھا گیا جبکہ ڈھائی لاکھ ڈالر کو منی مارکیٹ میں لگا دیا گیا۔

خط میں مزید بتایا گیا کہ 31 دسمبر 2018 کو اکاموتو ہولڈنگز کا بانڈز پورٹ فولیو 52 لاکھ 18 ہزار 964 ڈالر تھا جس کی مارکیٹ میں قیمت 54 لاکھ 7 ہزار 470۔98 ڈالرز تھی۔

خط کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اکاموتو ہولڈنگز ان بانڈز پر قلیل المدت قرض لیتا رہا تاکہ سرمایہ کاری میں تنوع کو دکھایا جا سکے۔

کیفن کے خط میں کہا گیا کہ ہمارے خیال میں اس بات کی معقول بنیادیں موجود ہیں کہ کیمن ٹرسٹ اور اس کے پیچھے برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنی کے پاس موجود فنڈز مجرمانہ طریقے سے حاصل کی گئی رقوم سے بنائے گئے ہیں، خط میں پاکستانی اداروں کو مزید معلومات کے لیے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔

چھ صفحات پر مشتمل خط میں بتایا گیا کہ یہ معلومات رائل کیمن آئی لینڈ پولیس سروس کے فائنانشل کرائم انویسٹی گیشن یونٹ کو بھی انٹیلی جنس کے مقاصد کے لیے فراہم کی گئی ہیں۔

کیفن نے پاکستانی اداروں کو مطلع کیا اس کے پاس اس کاروباری خاندان کے متعلق بٹرفیلڈ بینک کی جانب سے فراہم کردہ بہت سی دستاویزات موجود ہیں اور انہیں اس کی نقول حاصل کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ایف ایم یو کے دفاتر میں اس معاملے کی فائلوں پر روایتی دھول جم چکی ہے اور جس طرح نیب اور ایس ای سی پی اس سیاسی طور پر بااثر خاندان کے خلاف حرکت میں نہیں آ سکے، اسی طرح وزارت خزانہ کا فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ بھی اسی راستے پر چلتا دکھائی دیتا ہے۔

اپریل 2022 میں عمران خان کو ہٹا کر آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں جے ایس گروپ اور ان کے سپانسرز نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ بدعنوانی سے لڑنا اور اسے جڑ سے اکھاڑنا اس حکومت اور ریاستی اداروں کی ترجیح باقی نہیں رہا۔

تفتیش کرنے والوں کے مطابق صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ جن قوانین کا مقصد وائٹ کالر کرائم کو شکست دینا تھا انہیں اس قدر کمزور بنا دیا گیا ہے کہ اب بڑے منی لانڈرنگ کرنے والے شخص کر پکڑنا ناممکن ہو چکا ہے۔

- Advertisement -

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

کمپنی پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی داستان

پاکستان کی بین الاقوامی سطح کی بہترین انفارمیشن کمپنی...