عدلیہ میں اصلاحات کے حکومت کے متنازع منصوبے کی وجہ سے اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اہلکار کام پر جانے سے انکار کر رہے ہیں اور انہوں نے بغاوت کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیلی فضائیہ کے کم از کم 100 افسران نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت عدالتی بحالی کے منصوبے پر آگے بڑھتی ہے جس نے اسرائیل میں ایک گہرے سیاسی اور آئینی بحران کو جنم دیا ہے تو ہم ایک قدم بھی ساتھ نہیں دے سکتے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے ضمیر کی پکار اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ ہم مزید ڈیوٹی ریزرو کرنے کی اطلاع نہیں دے سکتے ہیں۔
افسران نے کہا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے پیدا ہونے والی آئینی صورتحال کے پیش نظر، جس میں اسرائیلی جمہوریت کا خاتمہ بھی شامل ہے، کے پیش نظر فوجی احکامات کی پیروی ہمارے حلف، ہمارے ضمیر اور ہمارے مشن کی خلاف ورزی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے خوابوں میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک یہودی اور جمہوری ملک کے طور پر اسرائیل کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی دشمن کے بجائے اندرونی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے اگر قانونی پیکج مکمل طور پر منظور اور نافذ ہو جاتا ہے تو افسران غیر جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔
اسرائیل کی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کے سینکڑوں دیگر ریزرو نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ عدلیہ میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاج کے لیے ڈیوٹی پر رپورٹ نہیں کریں گے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی غیرآئینی قوانین کو ختم کرنے کی صلاحیت محدود کرنے والا ایک بل اس ہفتے کے شروع میں پہلی ریڈنگ کے لیے منظور کیا گیا تھا۔
یہ عدالتی بحالی پیکج کا ایک اہم عنصر ہے جس نے کئی ہفتوں کے احتجاج کو ہوا دی ہے، احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ عدالتی آزادی اور اسرائیلی جمہوریت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
نیتن یاہو اور وزیر انصاف یاریو لیون کا کہنا ہے کہ تبدیلیاں منتخب عہدیداروں اور سپریم کورٹ کے درمیان توازن کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہیں، ان اصلاحات سے حکمران اتحاد کو ججوں کی تقرری کے مزید اختیارات بھی ملیں گے۔
مزید یہ کہ صدر اسحاق ہرزوگ نے بدھ کو اصلاحات پر ایک مجوزہ سمجھوتہ پیش کیا، لیکن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت نے اسے فوری طور پر مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ تمام وزرائے اعظم جو خود کو اسرائیل کا دوست قرار دیتے ہیں انہیں حکومت کے خلاف باہر آنے کی ضرورت ہے۔