چین کی آبادی میں 60 سال بعد کمی واقع ہوئی ہے، یہ ملک میں آبادی کے بحران کا ایک نیا سنگ میل سمجھا ہے جسے چینی معیشت کی سست روی کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔
چینی کے قومی ادارہ شماریات (این بھی ایس) کے مطابق گزشتہ برس چین کی آبادی 1.411 ارب افراد تک پہنچ گئی تھی جو 2021 کے اعدادوشمار کے مقابلے میں ساڑھے 8 لاکھ کم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل آبادی میں کمی 1961 میں واقع ہوئی تھی جب چئیرمین ماؤزے تنگ کے گریٹ لیپ فارورڈ کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر قحط آیا تھا۔
پن پوائنٹ ایسٹ مینیجمنٹ کے صدر ژی وی ژوانگ کے مطابق آبادی میں کمی کا یہ رجحان آنے والے برسوں میں جاری رہے گا۔
چین میں شرح پیدائش میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جو ایک ہزار میں 6.77 پیدائشوں تک پہنچ گئی ہے، یہ شرح 2021 میں 7.52 تھی اور 1949 کے بعد سب سے کم شرح پیدائش قرار دی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے باوجود گزشتہ برس 9.56 ملین بچے پیدا ہوئے جبکہ 2021 میں یہ تعداد 10.62 ملین تھی۔
گزشتہ برس چین کی معاشی شرح نمو صرف 3 فیصد رہی جو 50 سال کی بدترین شرح قرار دی گئی ہے، اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ افرادی قوت کی کمی اور ریٹائرڈ افراد کی تعداد میں اضافہ ایک بنیادی عنصر ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق 2023 میں بھارت کی آبادی چین سے بڑھ جائے گی۔
آبادی میں کمی کے بحران سے نمٹنے کے لیے چین نے 2015 میں ایک بچے کی پالیسی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور شادی شدہ افراد کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی تھی جس کی وجہ سے 2016 میں شرح پیدائش میں اضافہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد ہر سال کمی واقع ہوتی گئی۔
اسے دیکھتے ہوئے پالیسی سازوں نے 2021 میں شادی شدہ جوڑوں کو 3 بچے پیدا کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا اور بڑے خاندان بنانے کی حوصلہ افزائی کے لیے کوششیں بڑھا دیں، ان میں زچگی کی چھٹیوں میں اضافہ اور ٹیکسوں میں چھوٹ شامل تھی۔
ان پالیسیوں کے مثبت نتائج ابھی تک سامنے نہیں آ سکے جس کی وجوہات میں بڑھتے اخراجات زندگی، تعلیم اور معاشی غیریقینی شامل ہیں۔
کئی نوجوان دیر سے شادی کرنے یا شادی کے بعد بچے پیدا نہ کرنے کا انتخاب کر رہے ہیں، دہائیوں سے ایک بچے کی پالیسی نے 80 کی دہائی کی نسل پر دوہرا دباؤ ڈال دیا ہے جہاں ایک فرد کو بوڑھے والدین اور اپنے بچوں کی بیک وقت دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔
کورونا کی وبا نے اس دباؤ میں مزید اضافہ کیا ہے، حکومت کی وبا کو دبانے کی سخت گیر کوششوں نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے جس کے اثرات نوجوان نسل کو بھگتنے پڑے ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے اکتوبر میں پارٹی کی پانچ سالہ کانگریس میں آبادی میں اضافے کی حکمت عملی کو بہتر بنانے کا عہد کیا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم شرح پیدائش میں اضافے کے لیے پالیسی نظام قائم کریں گے اور زچگی، بچوں پالنے اور ان کے تعلیمی اخراجات میں کمی لائیں گے۔
معمر افراد کی بڑھتی تعداد
گزشتہ برس کے اعدادوشمار کے مطابق چین کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں 60 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد 28 کروڑ ہے جو کل آبادی کا 19.8 فیصد بنتا ہے، 2021 کے بعد ان معمر افراد کی تعداد میں ایک کروڑ 30 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
معمر افراد کی بڑھتی آبادی کا یہ سلسلہ ایشیا کی ترقی یافتہ معیشتوں میں یکساں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
جاپان اور جنوبی کوریا کو بھی یہی چیلنج درپیش ہے جہاں شرح پیدائش میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ معمر افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس کے نتیجے میں کام کرنے کے قابل افراد میں کمی واقع ہو رہی ہے اور معمر افراد کی دیکھ بھال پر صرف ہونے والے حکومتی اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔
چین کی کام کرنے کے قابل آبادی 2014 میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، گزشتہ برس ورلڈ اکنامک فورم کے شائع ہونے والے تجزیے کے مطابق 2100 تک اس میں ایک تہائی کمی واقع ہو جائے گی۔
اس کے برعکس 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد 2080 میں چین کی کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
چین کے تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین کی کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد مسلسل کمی کے بعد 2022 میں کل آبادی کا 62 فیصد رہ گئی ہے، یہ 2021 کے مقابلے میں 0.5 فیصد کم ہے۔