لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو 1990 سے 2001 تک کا توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم میں کہا کہ جس دوست ملک نے تحائف دیے ہیں وہ بھی بتائے جائیں اور کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی، سارا ریکارڈ پبلک کیا جائے۔
توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنے کی درخواست ایک شہری منیر احمد نے ایک وکیل اظہر صدیقی کے ذریعے دسمبر کے مہینے میں 2022ء میں دائر کی تھی
اس درخواست میں ملک پاکستان کے بننے سے اب تک توشہ خانہ سے دیے گئے تحائف اور جن شخصیات کو تحفے دیے گئے ہیں، ان کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 2002 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کردیا ہے، جسٹس عاصم حفیظ نے اٹارنی کی اس بات کا ذکر تحریری حکم نامے میں بھی کیا اور لکھا کہ درخواست گزار کے مطابق فراہم کردہ ریکارڈ ادھورا ہے، کسی کو بھی مقدس ترین گائے سمجھنا گمراہ کن ہوگا ۔
جسٹس عاصم حفیظ کے حکم نامے میں ہدایت دی گئی ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ریکارڈ پبلک کرنے کا مصدقہ ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کریں۔
اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی تاکید کی ہے کہ سرکاری وکیل اس کمیٹی کے فیصلے کی متعلقہ دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کے پابند ہوں گے اس کے بعد عدالت دیکھے گی کہ کیا تحفے دینے والے ذرائع کو خفیہ رکھنا ہے یا نہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سیکشن افسر نے بتایا کہ 1990ء سے 2001ء کا سرسری ریکارڈ موجود ہے، سیکشن افسر کے مطابق اس ریکارڈ پر تصدیقی مہر ثبت نہیں کی جاسکتی، متعلقہ ریکارڈ کی پڑتال کھلی عدالت میں کی جائے گی۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سارا ریکارڈ میسر ہوگا، تبھی کوئی فیصلہ ہو پائے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے توشہ خانہ کا 466 صفحات پر مشتمل 2002ء سے 2023ء تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کی رپورٹ پیش کی اور عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق پالیسی بنادی ہے۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔
سابقہ مہینے 21 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا ریکارڈ عدالت کو پیش کردیا تھا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے مؤقف اختیار کہ یہ ریکارڈ کلاسیفائیڈ ہے، اگر عدالت چاہے تو اسے منظر عام پر لا سکتی ہے، توشہ خانہ کے ریکارڈ کو پبلک کر نے کے بارے میں آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہونا ہے۔
دو دن پہلے وفاقی حکومت نے سال 2002ء سے 2022ء کے دوران توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سرکاری عہدوں کے حامل افراد کا ریکارڈ ہر پبلک کر دیا تھا۔