بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں تبدیلیوں کا مطالبہ کر دیا ہے جس سے اس بین الاقوامی معاہدے کے مستقبل پر سنگین سوالات پیدا ہو گئے
ایک طویل عرصے سے ہم یہ فقرہ سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ چونکہ دنیا کے طویل دریا ایک سے زیادہ ممالک کے درمیان گزرتے ہیں، اس لیے ان کے پانی کی تقسیم پر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں حل کرنے کے مختلف معاہدے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ایسا ہی تنازع 50 کی دہائی کے آخر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ اور اس میں گرنے والے پانچ دریاؤں کے معاملے پر پیدا ہوا۔ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مذاکرات ہوئے جبکہ ورلڈ بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
1960 میں یہ مذاکرات کامیاب ہوئے اور دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک نے معاہدے کے تیسرے فریق کے طور پر دستخط کیے۔
اس پر انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی کئی جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا لیکن اب بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی حکومت نے اسے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
لیکن سب سے پہلے اس معاہدے کی تفصیلات دیکھتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ’انڈس بیسن‘ کے تین مشرقی دریا، بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق ہے اور مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ پر پاکستان کا حق ہو گا۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریاؤں کا 20 فیصد پانی آب پاشی، ٹرانسپورٹ اور بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اس معاہدے کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کرنے کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم ہے جس کے ارکان ایک بار بھارت میں اور ایک بار پاکستان میں ملاقات کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں انجینئرز اور ٹیکنیکل سٹاف بھی شرکت کرتا ہے۔ میٹنگ میں مختلف امور پر بات ہوتی ہے جن میں سیلاب کے اعدادوشمار، پانی کا بہاؤ اور بارشوں کی صورتحال سمیت کئی پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہے۔
ماضی میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبے شروع کیے تو پاکستان کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ اس کے حصے کے پانی میں کمی آ جائے گی۔ تاہم ان تنازعات میں سے بعض کو حل کر لیا گیا۔ اس کی ایک مثال سلال ڈیم کا تنازع ہے جسے 1978 میں حل کیا گیا۔ اسی طرح 2007 میں بگلیہار ڈیم کا تنازع حل کیا گیا۔
پاکستان دریائے جہلم پر بننے والے کشن گنگا ڈیم اور دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے رتلے ڈیم پر اعتراض کرتا ہے۔ پاکستان ان دونوں منصوبوں کو ہیگ میں بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کر چکا ہے۔
دوطرفہ سطح پر قائم مستقل انڈس کمیشن میں بھارت نے 25 جنوری 2023کو اپنے کمشنر کے ذریعے ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات پر دونوں ممالک اگلے 90 دنوں میں مذاکرات کریں۔
پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، پاکستان کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ انڈیا سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر تبدیلی کرنا چاہتا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
بھارت چاہتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی جائے اور کسی بھی تنازع کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ جبکہ پاکستان عالمی ثالثی عدالت یا کسی تیسرے ملک سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہے۔
فروری میں ورلڈ بینک نے پاکستان کے نکتہ نظر کی حمایت کی مگر بھارت نے اس پر اعتراض کر دیا۔ بھارتی حکومتی ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ یکطرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کرنے پر غور کرے گا۔
اس کے برعکس پاکستان کا موقف ہے کہ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ صرف سندھ طاس بلکہ جنوبی ایشیا میں تمام بین الاقوامی آبی تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے۔