وکٹر فرینکل ایک یہودی ماہر نفسیات تھے جنہیں نازی جرمنی کے عقوبت خانے میں تین سال کی اذیت ناک قید گزارنا پڑی۔ اس دوران ان کے والدین، بیوی اور بچے مارے گئے۔
وکٹر فرینکل نے رہائی کے بعد ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ میں قیدیوں کی کیا حالت تھی اوران کے ساتھ بے رحم محافظ کیسا سلوک کیا کرتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے نازی فوجیوں کے ہاتھوں ان قیدیوں کو مرتے دیکھا جن کے ساتھ وہ اپنے شب و روز گزارتے تھے اور جو ان کے گہرے دوست بن گئے تھے۔
انہیں روزانہ پتھر توڑنے کے لئے برفیلی زمین پر کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا۔ اکثراوقات ایسا ہوتا کہ اس کے ساتھی کم خوراکی کی وجہ سے لاغر ہو کر برف پر گر پڑتے اور محافظ انہیں مرنے کے لئے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتے۔
اپنے قریبی دوستوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے برف پر گرتے دیکھنا اور ان کے لئے کچھ کئے بغیر خاموشی سے آگے بڑھ جانا ایک اذیت ناک تجربہ تھا جس سے تمام قیدیوں کو اکثروبیشتر گزرنا پڑتا تھا۔
کئی لوگ بیماریوں کی لپیٹ میں آ گئے اور چونکہ ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اس لئے وہ سسک سسک کر مر گئے۔ بہت سے ساتھیوں کو نازی محافظوں نے صرف لطف لینے کے لیے نت نئے طریقوں سے قتل کیا۔
اس طرح جرمن فوجی ان کی آنکھوں کے سامنے بے شمار قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور پھر ان کی کوئی خبر نہ ملی۔
کئی برس ان اذیت ناک تجربات سے گزرنے کی وجہ سے اس کے اندر ایک مستقل غیر یقینی اور تشکیک نے جنم لیا اور پھریہ منفی جذبے دھیرے دھیرے ان کی ذات کے ایک ایک ریشے میں سرایت کر گئے۔
جو لوگ اس کیمپ میں مقید تھے، انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہ اگلے لمحے زندگی ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ آیا کہ وہ زندہ رہ پاتے ہیں یا انہیں کسی اذیت پسند محافظ کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مرنا پڑے گا؟
انہیں کچھ علم نہیں تھا کہ کونسا ساتھی کچھ دنوں بعد ان کے درمیان باقی نہیں ہو گا۔ کبھی اگر ان کے محافظ اچھے موڈ میں ہوتے تو وہ اسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
جب نازیوں کو شکست ہوئی اور امریکی فوجیوں نے ان قیدیوں کو رہا کیا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ اذیتوں کے دن ختم ہو چکے ہیں اور وہ ایک آزاد انسان کی طرح اپنی مرضی سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
ایک طویل عرصہ وکٹر فرینکل کو شک رہا کہ یہ نازیوں کی کوئی نئی چال ہے۔ شاید وہ اسے پوری طرح آزادی کا یقین دلا کر قتل کرنا چاہتے ہیں۔ یا پھر کچھ عرصے بعد وہ قہقہے لگاتے آئیں گے اور اس کا مذاق اڑا کر واپس قید میں ڈال دیں گے۔ اسے یہ یقین دوبارہ حاصل کرنے میں کئی سال لگ گئے کہ اب وہ حقیقی آزادی سے ہمکنار ہو چکا ہے۔
یہ ایک فرد کی مثال تھی جسے مسلسل اذیتوں، دھوکے، بھوک، بیماری اور ظلم کی حالت میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں امید، خوشی اور یقین کی مثبت جبلتیں اس سے روٹھ گئیں۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی معاشرہ بھی ایسی ہی منفی نفسیات کا شکار ہو چکا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک عام انسان کے ساتھ دھوکہ ہی کیا ہے، اس سے مسلسل جھوٹ بولے گئے، اسے بھوک میں رکھا گیا، پولیس کے ذریعے اسے خوف میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں اس کے اندر مثبت جذبے دھیرے دھیرے مرتے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی لمحے اگر ہمارے معاشرے کو خوشی اور مسرت کی خبر ملے تو فوراً اس میں سازش کے تانے بانے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر دوست ممالک مدد کا اعلان کرتے ہیں تو عوام کو اس مدد کے پیچھے گھمبیر سازشوں کے مبہم ہیولے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
امید کی کرنیں جب بھی اس کی زندگی میں داخل ہونے لگتی ہیں وہ اپنے اوپر مایوسیوں کی ردا اوڑھ لیتا ہے اور اس بات کو یقینی بنا لیتا ہے کہ کوئی بھولی بھٹکی کرن اس کی ذات کو مس نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کا بڑا حصہ عوام میں امید پیدا ہونے سے خوفزدہ ہے، وہ انہیں مسلسل مایوسی میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ ملکی وسائل سے مستفید ہونے کی راہ میں کسی قسم کے احتجاج کا خدشہ موجود نہ رہے۔
ہماری یادداشت میں سابق صدر پرویز مشرف نے امید کی شمع جلانے کی کوشش کی تھی، آئی ٹی کا انقلاب اور الیکٹرانک میڈیا کا سیلاب اسی کوشش کے دو اہم حصے تھے۔
موجودہ صورتحال میں عمران خان کی شکل میں امید کی ایک جوت قلوب میں جاگ اٹھی ہے جسے بجھانے کے لیے اشرافیہ مسلسل سرد و گرم پھونکیں مار رہی ہے۔
ان کی سوچ کی محدودیت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قوموں میں اگر امید کا جذبہ ابھار دیا جائے تو وہ ہر طرح کی مشکلات سے نکل آتی ہیں۔ جن مسائل کو حل کرنے کی کوششیں ہر حکومت کرتی ہے، اس میں کامیابی کی پہلی شرط ہی عوام میں امید کی شمع جلانا ہے، مثبت تبدیلی صرف انتظامی اقدامات یا جبر کے ذریعے نہیں آ سکتی۔
رجائیت آگے بڑھنے کے لیے شرط اولین ہے۔