مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث طوفان سے پہلے جیسی خاموشی طاری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک کم از کم 25 صحافی گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق پر بات کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے 60 واقعات سامنے آئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں شائع رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2022 کے دوران غیرقانونی حراست کے خلاف دائر درخواستوں کی تعداد 32 فیصد بڑھی ہے۔
بی بی سی نے مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کشمیری عوام خوف کے عالم مین جی رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عوام آپس میں بات بھی دھیمی آواز میں کرتے ہیں، خوف اور جبر کا یہ عالم ہے کہ فون پر بھی گفتگو میں احتیاط کی جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے دیواریں بھی ان کی باتیں سن رہی ہوں۔
مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ایک خاتون کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹوں پر لوگ گرفتار کر لیے جاتے ہیں جنہیں زیرحراست رکھ کر تشدد کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو کم سے کم بولنا ہو گا، کشمیریوں کے حقوق کی بات کرنے والی ویب سائیٹس کشمیر میں نہیں کھلتیں جبکہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کر دیے جاتے ہیں۔
ایک اور خاتون کے مطابق چند لوگوں کو مثال بنا کر باقی عوام کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کو دستاویزی شکل دینے پر سزا دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کشمیر کے باہر اور اندر کچھ معلومات نہیں ملتیں، خوف ہمارے سانسوں کا حصہ بن چکا ہے۔
ایک کشمیری نوجوان کے مطابق خود بھارت بھی اس گھمبیر خاموشی پر الجھن میں مبتلا ہے کہ اس کے پیچھے سمجھداری ہے یا پھر ناامیدی۔
معروف تجزیہ کار انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ مختلف طریقوں سے عوام کو ڈرایا جاتا ہے، کبھی نامعلوم فون کالز آتی ہیں، حراست میں لیا جاتا ہے، مقدمات درج ہوتے ہیں اور اس میں سوشل میڈیا صارفین اور صحافی دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت کی جانب سے نگرانی کے ذریعے نمٹا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے۔’
مقبوضہ کشمیر میں 2019 سے مختلف قوانین رائج کیے گئے ہیں جن میں سے تین ایسے ہیں جو مقبوضہ کشمیر کی شکل تبدیل کر دیں گے۔
جائیداد کی خرید و فروخت کا قانون
جب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا ہے اس وقت سے جموں و کشمیر میں تمام بھارتی شہریوں کو جائیداد خریدنے کا حق مل گیا ہے، اس سے قبل یہ حق صرف کشمیریوں کے پاس تھا۔
انتخابات سے متعلقہ قوانین
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یہاں صرف وہی کشمیری ووٹ ڈال سکتے تھے یا انتخابات میں امیدوار بن سکتے تھے جو کشمیر کے مستقل رہائشی ہوں، اب یہ پابندی بھی ختم ہو گئی ہے۔
ڈومیسائل کا حق
نئے قوانین کے مطابق کوئی بھی شخص جو 15 برس سے کشمیر میں رہائش پذیر ہو اب ریاست کا ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے، اس سے قبل یہ حق صرف کشمیر کے مستقل رہائشیوں کے پاس تھا۔
مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد 10 برس جبکہ ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے 7 برس کر دی گئی ہے جس کے بعد وہ ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔
کشمیر کے باشندوں کے مطابق یہ تمام قوانین وادی میں آبادی کا تناسب بدل دیں گے اور کشمیری اپنے ہی خطے میں اقلیت بن جائیں گے۔