اسٹیٹ بینک نے ملک میں معاشی ترقی کی شرح کے متعلق اپنے سابقہ اندازوں میں مزید کمی کر دی ہے۔
مرکزی بینک نے مالی سال 2021-22 کی سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ میں معاشی شرح نمو (جی ڈی پی) کی شرح تین سے چار فیصد سے کم رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے، اس سے قبل بینک نے یہ شرح تین سے چار فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ظاہر کی تھی۔
دوسری جانب بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسیوں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مزید کم کر دی ہے اور جی ڈی پی کی شرح میں صرف دو فیصد اضافے کی پیشگوئی کی ہے۔
مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی کی شرح کم ہونے کی وجوہات میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری اور معیشت کو استحکام دینے کی پالیسی شامل ہیں۔
سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح 6 فیصد تک رہی جو گزشتہ برس 5.7 فیصد تھی، معاشی ترقی کی وجوہات میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ اور زرعی پیداوار میں بہتری شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2022 کے دوران عالمی اور ملکی حالات کے نتیجے میں معاشی عدم توازن پیدا ہوا، اجناس کی عالمی قیمتوں اور روس یوکرین جنگ کے باعث جاری کھاتے کے خساروں میں بگاڑ پیدا ہوا جبکہ آئی ایم ایف بحالی پروگرام میں تاخیر اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کے حتمی اندازے بتانے سے گریز کیا ہے، اس کی وجہ بگڑتے معاشی حالات ہیں۔
ملک میں صنعتوں کو یا تو بند کرنا پڑا ہے یا بڑھتے افراط زر اور مہنگی بجلی و گیس کے باعث پیداوار میں بڑی کمی لانی پڑی ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کا کہنا ہے کہ ان کی صنعت سے براہ راست یا بالواسطہ جڑے 5 لاکھ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔
اپٹما نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں گیس مہیا نہیں کی گئی اور ایل سیز نہ کھولی گئیں تو وہ چند دنوں میں ملازمین کو برطرف کرنا شروع کر دیں گے۔