رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران سمندرپار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں 10.8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
جولائی 2022 سے مارچ 2023 کے دوران مجموعی طور پر ساڑھے بیس ارب ڈالر موصول ہوئے جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں بھیجی گئی رقوم سے سوا دور ارب ڈالر کم ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں نے ڈھائی ارب ڈالر بھیجے، ماہانہ بنیادوں پر یہ 27.4 فیصد اضافہ ہے۔
مارچ کے دوران سب سے زیادہ ترسیلات زر 56 کروڑ 39 لاکھ ڈالرز سعودی عرب سے موصول ہوئیں جبکہ برطانیہ سے بھیجی گئی رقوم 42 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہیں۔
متحدہ عرب امارات سے 40 کروڑ 67 لاکھ ڈالر موصول ہوئے، اسی طرح امریکہ سے 31 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی رقوم موصول ہوئیں۔
جولائی 2022 سے فروری 2023 کے دوران 17.9 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 11 فیصد کمی تھی۔
رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر میں کمی کا رجحان مسلسل برقرار ہے، اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ روپے کی قدر مصنوعی طور پر برقرار رکھنا تھا۔
یہ پابندی ہٹانے کے بعد مارچ میں 27.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کرنسی کی بلیک مارکیٹ کا حجم کم ہو رہا ہے۔
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے ترسیلات زر غیرقانونی ذرائع سے بھیجی جا رہی تھیں کیونکہ غیرقانونی گرے مارکیٹ میں ڈالر کی 30 سے 40 روپے زیادہ قیمت کی پیش کش کی جارہی تھی۔؎
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ ہ شرح تبادلہ کو اس سطح پر لائیں جو پاک۔افغان سرحد پر ہے۔