معروف کاروباری اور سماجی شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی معاشی تبدیلیاں پاکستان کے لیے بہت اچھے مواقع لا رہی ہیں جن سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
یہ بات انہوں نے نیریٹوز میڈیا کے یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے کہی۔
عالمی معاشی منظرنامہ
عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر 2008 کے معاشی بحران کے بعد ترقی یافتہ ممالک نے پالیسی تبدیل کی جس کے اثرات پوری دنیا پر پڑے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے جاپان نے شرح سود صفر کر دی، اس کے بعد امریکہ نے بھی یہی کیا اور ڈالرز چھاپنے شروع کر دیے تاکہ لوگ بنکوں سے قرض لینے سے نہ ہچکچائیں اور اخراجات کرتے ہیں، اس پالیسی کے نتیجے میں امریکہ کساد بازاری سے نکل آیا۔
انہوں نے کہا کہ جب نظام میں حکومت پیسہ پھینکتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ پیسہ اسی ملک میں رہے، یہی امریکہ کے ساتھ ہوا، جب لوگوں کو زیادہ نفع نہیں ملا تو وہ دوسرے ممالک کی طرف چلے گئے۔ اس سے چین، روس، بھارت اور دیگر ممالک کو فائدہ ہوا کیونکہ وہاں سرمایہ کاری شروع ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان ممالک میں پیسہ آیا تو لوگوں نے اخراجات بڑھا دیے جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں بلند ہو گئیں، چونکہ دنیا کو سب سے زیادہ اشیاء برآمد کرنے والا چین ہے تو اسے بہت فائدہ ہوا۔ اسی طرح تیل، گیس اور کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک جن میں روس، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات شام ہیں، کو بھی بہت فائدہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک کا انحصار درآمدات پر تھا، اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے ان کے خسارے بڑھ گئے، پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو بری طرح متاثر ہوئے۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے بتایا کہ گزشتہ برس خدمات اور اشیاء کا مجموعی درآمدی بل 84 ارب ڈالرز تک چلا گیا جبکہ خدمات کو شامل کر کے برآمدات 40 ارب ڈالرز تک جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، اب وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کم اخراجات کریں تاکہ افراط زر میں کمی واقع ہو۔
انہوں نے کہا کہ بچتوں کے فروغ کے لیے امریکہ نے 3 بار شرح سود میں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کا 10 سال کا بانڈ 4 فیصد تک آ گیا ہے جبکہ مکانوں کے رہن کی شرح 7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کے باعث وہاں بنکوں سے قرض لے کر مکان بنانا مشکل ہو گیا ہے، اب وہاں مکان فروخت ہونے بند ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں سٹیل، سیمنٹ وغیرہ کی فروخت بھی کم ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اشیاء کی خریداری کم کریں گے تو ان کی طلب بھی کم ہو جائے گی جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے بتایا کہ اس وقت بھی عالمی سطح پر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 30 سے 32 فیصد کمی آ چکی ہے، ابھی مزید کمی آنا یقینی ہے جس کی وجہ سے برآمدات کرنے والے ممالک شدید بحران کا شکار ہو جائیں گے جبکہ درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک کو بہت فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اشیاء ضروریہ اور توانائی کے نرخ کم ہونے سے ان کا خسارہ کم ہو جائے گا جس سے زرمبادلہ پر دباؤ ختم ہو گا۔ پاکستان کو اس صورتحال میں بہت فائدہ ہو گا کیونکہ ہمارا درآمدی بل آدھا رہ جائے گا، یوں تجارتی خسارہ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت مزید بجلی پیدا کرنے کے معاہدے نہ کرے کیونکہ ہمارے پاس موجود صلاحیت ہماری ضروریات کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب میں آئی ٹی پروفیشنل بہت مہنگے ہیں جبکہ ہمارے پاس سستی مین پاور موجود ہے، اس لیے آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینی چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت تین چار ارب ڈالرز کا بندوبست کر لے اور اگلے دو تین مشکل مہینے گزار لے تو آگے حالات بہتر ہو جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں، ان کے زرمبادلہ کے ذخائر 650 ارب ڈالرز سے گر کر 570 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے پیشگوئی کی کہ جب امریکہ میں 4 فیصد سود ملنا شروع ہو جائے گا تو باقی دنیا میں بکھری سرمایہ کاری واپس امریکہ کا رخ کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں غیرملکی سرمایہ کاری بہت ہے، اگر یہ پیسہ وہاں سے نکلا تو اس ملک کے لیے مشکلات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔
عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر شرح سود کا معاملہ ٹھیک کر لیا جائے اور سیاست دان مل بیٹھ کر ملکی سیاست میں استحکام لے آئیں تو پاکستان دنیا میں ہونے والے معاشی یوٹرن سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پاکستانی روپے کا مستقبل
عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسوں کے ذریعے مشکل سے 7 سے ساڑھے 7 ہزار ارب روپے جمع ہوتے ہیں جبکہ صرف سود کی مد میں ہمیں 9 ہزار ارب روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے اور اس کے مقابلے میں تمام کرنسیاں اپنی قدر کھو رہی ہیں، پاکستان بھی اسی سے متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ دسمبر تک ہمارا جاری کھاتہ خسارے سے نکل کر مثبت زون میں داخل ہو سکتا ہے کیونکہ درآمدی اشیاء کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں جس سے ہماری درآمدات بھی کم ہو رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درآمدات پر بوجھ کم ہونے کی وجہ سے روپے پر دباؤ کم ہو گا اور وہ ایک مرتبہ پھر استحکام کی طرف چل پڑے گا۔
سیاست دانوں کا مل بیٹھ کر مسائل حل کرنا ضروری ہے
عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا تھا کہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنی رپورٹ میں سیاسی عدم استحکام کے متعلق توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرنا ضروری ہے، اس حوالے سے سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 45 ہزار میگا واٹ ہے جس میں سے 20 ہزار میگاواٹ فروخت نہیں ہو رہی۔
انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں لوگ بنکوں سے قرض لے کر اشیاء خریدتے ہیں، ان کے لیے مشکل وقت آنے والا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کلچر موجود نہیں اس لیے ہمارا ملک زیادہ مشکلات کا شکار نہیں ہو گا۔