کورونا کے دنوں میں بھارت اور بنگلہ دیش نے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جبکہ پاکستان میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران برآمدی شعبے کو کام کرنے کی اجازت دی گئی جس کی وجہ سے بیرون ملک سے ٹیکسٹائل کے آرڈرز پاکستان کو ملنا شروع ہو گئے۔
جس وقت بھارت اور بنگلہ دیش میں صنعتیں بند تھیں، اس وقت پاکستان کی صنعتوں کے لیے امریکہ اور یورپ سے برآمدی آرڈرز کی بہتات ہو گئی جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں تیزی سے بڑھوتری ہونے لگی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل میں آرڈرز میں اسقدر تیزی آ گئی کہ مل مالکان ورکرز کو اضافی پیسے دینے کے لیے بھی تیار تھے، فیصل آباد، لاہور، ملتان، کراچی، سیالکوٹ سمیت دیگر بڑے شہروں میں برآمدی آرڈرز کی بہتات ہو گئی تھی۔
تاہم موجودہ برس حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز بند ہو رہی ہیں، ورکرز بیروزگار ہو گئے ہیں جبکہ کئی مل مالکان سب کچھ بیچ کر دوسرے ملک صنعتیں منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی گارمنٹس کی ایک صنعتکار کے مطابق ان کے برآمدی آرڈرز نصف رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بہت مشکل کا شکار ہیں۔
گزشتہ برس ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں ماہانہ بنیادوں پر برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں جو اس برس کم ہو کر اوسطاً ایک ارب ڈالر تک آ گئی ہیں۔
پاکستان سے برآمدی آرڈرز بنگلہ دیش اور بھارت جانے کی وجوہات
بی بی سی کے مطابق امریکی اور یورپی خریداروں کی پہلی ترجیح ایک بار پھر بنگلہ دیش اور اس کے بعد بھارت بن گئے ہیں، اس کی اولین وجہ بنگلہ دیش کا قومی سطح پر برآمدات کا کلچر ہے جہاں آرڈرز کی تکمیل وقت سے بھی پہلے ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں مصنوعات پر لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت میں ٹیکسٹائل پر اخراجات کم ہیں، ایک پاکستانی ایکسپورٹر کے مطابق جو شرٹ بنگلہ دیش 10 ڈالر میں فروخت کرتا ہے، اسے پاکستان میں اس قیمت پر فروخت کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان میں خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اس کے علاوہ گیس، بجلی اور شپمنٹ کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے سستا مال تیار کرنا ممکن نہیں رہا اور خریدار بنگلہ دیش اور بھارت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
بنگلہ دیش میں برآمدات بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟
بی بی سی کے مطابق پاکستان میں گارمنٹس کی مصنوعات کی رینج کم ہے جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت کی پراڈکٹ لائن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین نوید احمد کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں برآمدی کلچر کی جڑیں گہری ہیں، وہاں بین الاقوامی خریداروں کو وی آئی پی کا درجہ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈھاکہ کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں 95 فیصد بین الاقوامی خریدار اور سرمایہ کار موجود ہیں، بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہر ہفتے گارمنٹس ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقات کرتی ہیں جس میں صرف ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے پر گفتگو ہوتی ہے۔
بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی صنعت میں ترقی کی ایک بڑی وجہ خواتین کی بڑے پیمانے پر شمولیت ہے جن کے متعلق یہ تاثر ہے کہ وہ محنت اور دیانت داری سے کام کرتی ہیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق امریکی مارکیٹ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مختلف اقسام کی برآمدات میں 15 سے 19 فیصد جبکہ برطانیہ کو برآمدات میں 11 سے 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری جانب نومبر میں بھارت کی ٹیکسٹائل مصنوعات بھارتی روپوں میں 469 ارب سے بڑھ کر 485 ہو گئی ہیں، بنگلہ دیش میں جولائی سے دسمبر کے دوران یورپی یونین کو برآمدات میں 16 فیصد، برطانیہ کو 11 فیصد اور امریکہ کو بھیجی گئی مصنوعات میں ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔