رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران حکومت کو 1683 ارب روپے کے مالی خسارے کا سامنا ہے جو جی ڈی پی کا دو فیصد بنتا ہے۔
جولائی سے دسمبر کے دوران سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق حکومت کو ملنے والے محاصل 4698 ارب روپے رہے جبکہ اخراجات 6382 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں جاری اخراجات 77 فیصد بڑھ کر 6061 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
اسی طرح قرضوں کی ادائیگی پر گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 1452 ارب روپے صرف ہوئے جو اس برس بڑھ کر 2573 ارب روپے ہو گئے ہیں۔
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس سے حاصل شدہ محصولات 3731 ارب روپے جبکہ غیرٹیکس محصولات 967 ارب روپے رہے، وفاق نے 3428 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جبکہ صوبوں سے صرف 303 ارب روپے کا ٹیکس موصول ہوا۔
غیرٹیکس محصولات اکٹھے کرنے میں وفاق کا حصہ 896.4 ارب روپے رہا جبکہ صوبوں کا حصہ 70 ارب تک محدود رہا۔
جاری اخراجات میں سود پر ادائیگی 2573 ارب روپے رہی جس میں 2273.4 ارب روپے داخلی، 299.5 بیرونی، 638.8 ارب روپے دفاع کے مد میں، 321.1 ارب روپے پنشن میں، 226.6 ارب روپے حکومتی اخراجات، 196.6 ارب روپے سبسڈیز جبکہ 389.1 ارب روپے گرانٹس پر صرف ہوئے۔
وفاقی حکومت کا ٹیکس کے محصولات میں حصہ 3428 ارب روپے رہا جس میں 1525 ارب روپے براہ راست ٹیکس، 466 ارب روپے بین الاقوامی تجارت، 1271 ارب روپے سیلز ٹیکس جبکہ 164 ارب روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جمع ہوئے۔
صوبوں کا ٹیکس کے محصولات میں حصہ 303 ارب روپے رہا جس میں خدمات پر سیلز ٹیکس 186.3 ارب روپے، ایکسائز ڈیوٹی 4.7 ارب روپے، سٹیمپ ڈیوٹی 31.04 ارب روپے، گاڑیوں پر ٹیکس 15.6 ارب روپے اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں 65.2 ارب روپے اکٹھے ہوئے۔