خلابازوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایک بڑے شہاب ثاقب کی دریافت کا اعلان کیا ہے جو سورج کی روشنی کے باعث چھپا ہوا تھا اور جو زمین کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ڈیڑھ کلومیٹر چوڑے اس شہاب ثاقب کو 2022 اے پی 7 کا نام دیا گیا ہے، اسے خلا کے اس حصے میں دریافت کیا گیا ہے جہاں سورج کی روشنی کے باعث کسی بھی چیز کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
اسے چلی میں موجود وکٹر ایم بلینکو دوربین کے ذریعے دریافت کیا گیا ہے، اس دوربین کو تاریک مادے کی دریافت کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس کے خلاباز سکاٹ شیپرڈ اس ٹیم کا حصہ ہیں جس نے اس شہاب ثاقب کو دریافت کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ زمین کے مدار سے گزرے گا جس کی وجہ سے اسے ممکنہ خطرہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس کا گزرنے کا زاویہ ایسا ہے کہ اس کے زمین سے ٹکرانے کا خطرہ نہیں ہے۔
یہ شہاب ثاقب اس لیے خطرناک سمجھا جا رہا ہے کہ مختلف قسم کی کشش ثقل کے زیراثر ایسی خلائی چٹانوں کا زاویہ دھیرے دھیرے بدلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے طویل المدت پیش گوئی کرنا ممکن نہیں رہتا۔
شیفرڈ کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس کے زمین سے ٹکرانے کا خدشہ بہت کم ہے لیکن اتنے بڑے شہاب ثاقب کا ٹکراؤ زمین پر زندگی کے لیے خوفناک ثابت ہو گا۔
اپنے موجودہ مدار کے تحت یہ شہاب ثاقب سورج کے گرد اپنی گردش 5 سال میں مکمل کرتا ہے، اپنے سفر میں جب یہ زمین کے قریب ترین ہوتا ہے اس وقت بھی زمین سے اس کا فاصلہ کئی ملین کلومیٹر ہوتا ہے۔
ایک امریکی ریسرچ گروپ نائرلیب کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب گزشتہ 8 برسوں میں زمین کے لیے خطرناک ثابت ہونے والی سب سے بڑی چیز ہے۔
زمین کے قریب اب تک 30 ہزار شہاب ثاقب دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے بعض کا حجم ایک کلومیٹر تک ہے، اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے بھی اگلے 100 برس تک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ نہیں ہے۔