اپریل میں پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان کی ٹیکنالوجی برآمدات میں اضافے کی شرح بری طرح کم ہوئی ہے۔
رواں برس کے آغاز میں ٹیکنالوجی کی برآمدات 3 ارب ڈالرز تک متوقع تھیں، اس وقت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس سے بھی آگے جائیں گے اور کسی نے اس دعوے پر شک نہیں کیا تھا۔
اس وقت تک حکومت کو اس سیکٹر سے ڈالرز آنے کی بہت امید تھی، لیکن مارچ آخری مہینہ ثابت ہوا جب 212.3 ملین ڈالرز کی ریکارڈ ٹیک ایکسپورٹس ہوئیں۔
اس کے بعد اگلے 7 ماہ کے دوران پاکستان کی ٹیلی کام، کمیونی کیشن اور انفارمیشن سروسز کی برآمدات کی رفتار کم ہوتی گئیں۔
رواں برس جولائی سے ستمبر کے دوران پاکستان کی ٹیک ایکسپورٹس 663 ملین ڈالرز رہی ہیں جو گزشتہ چار سہ ماہیوں کے مقابلے میں کم ہیں۔
اپریل سے لے کر اکتوبر تک سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں اضافہ صرف 9.56 فیصد رہا، 2021 کے اسی عرصے کے دوران یہ اضافہ 48.83 فیصد تھا۔
اپریل سے جولائی کے دوران آئی ٹی کی ایکسپورٹس میں بہتری 10 فیصد سے کم رہی جبکہ ستمبر میں یہ منفی میں آ گئی۔
اس سے قبل بھی اس طرح کی کمی اکتوبر 2016 سے فروری 2017 میں دیکھی گئی تھی، اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی معاشی پالیسی کو عمومی طور پر برآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے والی سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ ڈالر میں ہونے والے تیزتر اتارچڑھاؤ نے بھی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو محتاط کر دیا ہے اور وہ ڈالرز کو ملک میں واپس لانے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت نے گزشتہ برس اپنی آئی ٹی سروسز میں 17 فیصد اضافہ کیا تھا، رواں برس اپریل سے ستمبر کے دوران بھارتی آئی ٹی ایکسپورٹس 150.43 ارب ڈالرز رہیں۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں اپریل سے ستمبر کے دوران آئی ٹی برآمدات کا حجم 845 ارب ڈالرز رہا، سالانہ بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ صرف 3 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل سے قبل جس تیزرفتاری سے یہ ایکسپورٹس بڑھ رہی تھیں، اس میں بہت کمی آ گئی ہے۔