جنرل قمر جاوید باجوہ نے 23 نومبر 2022 ءکو راولپنڈی میں یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فروری 2021 میں فوج نے بطور ادارہ یہ فیصلہ کیا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی کیونکہ سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے. اس سے قبل یہی باتیں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار ایک پریس کانفرنس میں کرچکے ہیں.
یہ بظاہر ایک خوش کن بیانیہ ہے لیکن درحقیقت جنرل باجوہ جاتے جاتےفوج کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کی ایف آئی آر بھی کاٹ کر جا رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ فروری 2021 کے بعد فوج سیاست میں مداخلت نہیں کر رہی ایک صریح اعتراف ہے کہ فوج بطور ادارہ آئین کی مسلسل خلاف ورزی میں ملوث رہی ہے۔ اس بات کو آج نہیں تو کل فوج مخالف حلقے فوج کے خلاف استعمال کریں گے. آرمی کے سربراہ کی طرف سے اس طرح کے بیان نے فوج کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے. جس کے دور رس اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے ۔
سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2016 سے جنرل باجوہ فوج کے سربراہ تھے تو انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کیوں ہونے دی اور اگر وہ بطور سربراہ آئین شکنی میں ملوث رہے تھے تو کیا یہ فیصلہ کرلینا کہ آئندہ آئین شکنی نہیں کریں گے، ماضی کی آئین شکنی کے جرم کی تلافی بن جاتی ہے ؟اصولی طور پر انہیں فروری 2021 ء میں ہی استعفا دے کر خود کو قانون کے حوالے کر دینا چاہیے تھا کیونکہ آئین کی خلاف ورزی ایک جرم ہے اور یہ جرم ایسا نہیں کہ فوجی افسران خود ہی خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے دیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آرمی چیف یا کسی اعلیٰ فوجی افسر کے محض بیان پر کیوں اعتبار کیا جائے، عملی طور پر وہ کون سے اقدامات کئے گئے ہیں جن کے بعد سیاست میں مداخلت بند ہو جائے گی یا وہ کون سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ مداخلت کی ضرورت بند ہو گئی ہے؟
آپ نے چند جرنیلوں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنی، کل کوئی دوسرا چیف اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مداخلت کرنی چاہیے تو اسے کون روکے گا؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی 2008 میں یہی دعویٰ کیا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی لیکن اس کے بارہ سال بعد آپ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔
بہتر ہوتا کہ آپ فوج کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کر لیتے. قومی سلامتی کے ادارے پوری دنیا میں حکومتی معاملات یعنی سیاست میں کسی نہ کسی طور مداخلت کرتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنے نشانات نہیں چھوڑتے۔ لیکن جب سے آپ چیف بنے سیاسی معاملات میں کردار ادا کرنے والے افسران پر کوئی موثر کنٹرول نہ رکھ سکے۔ ہر دوسرے بندے کو معلوم ہوتا تھا کہ فلاں بریگیڈیئر صاحب یا فلاں کرنل صاحب فلاں سیاستدان سے رابطہ کر رہے ہیں،
سوشل میڈیا کی ترقی کو یکسر نظر انداز کرکے آپ کے افسران بالکل پرانے فرسودہ طریقوں سے معاملات کو ڈیل کرتے رہے جس کی وجہ سے فوج بدنام ہوتی رہی. پہلے لوگ نجی محفلوں میں افسران کے نام بتایا کرتے تھے پھر نواز شریف اور دیگر پی ڈیم ایم سیاستدانوں نے جلسوں میں افسران کے نام لینے شروع کر دیئے، رہی سہی کسر عمران خان نے پوری کر دی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب آپ کے دور میں فوج کو ہر طرح کی گالی پڑی ‘کسی نے خلائی مخلوق کہا‘ کسی نے محکمہ زراعت کہا اور پھر اب نیوٹرل کے طعنے فوج کو دیئے گئے. آج ہم عمران خان کے بیانیے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اس سے پہلے کون ذمہ دار تھا جب فوج کو خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کے طعنے دیے جاتے تھے؟ کیا آپ اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ آپ کے چھ سالہ دور میں فوج کو جس قدر عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اتنا تو شاید 1971 کی جنگ ہارنے کے بعد بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔
وہ لوگ جو صبح شام فوج کی حمایت میں لکھا اور بولا کرتے تھے وہ بھی پسپائی پر مجبور ہو گئے اور کئی ایک عمران خان کے بیانئے کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ عمران خان کی غیر ضروری حمایت سے دستکش ہونا ایک اچھا فیصلہ تھا مگر اس پر بتدریج عمل ہونا چاہیے تھا اور اسے 2023 کے انتخابات پر مکمل ہونا چاہیے تھا لیکن اچانک سیاسی معاملات سے یکسر لاتعلق ہو کر ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا. عمران خان کے بیانیے میں کوئی خاص طاقت نہیں تھی، یہ آپ کی طرف سے فل ٹاس پھینکی گئی جس پر وہ آج تک ایک بے بنیاد قسم کی مہم جوئی میں لگے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے بیانات کانوں کو اچھے لگتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں اگر فوج اور قومی سلامتی کے ادارے سیاست میں کردار ادا کرتے رہے ہیں تو کیا اس وقت کی قیادت دانش اور دور اندیشی سے عاری تھی؟ نئے آرمی چیف کے لیے اولین ترجیح یہ ہو گی کہ وہ جنرل باجوہ کی غلطیوں کے باعث فوج کی عوام میں متاثر ہونے والی ساکھ کو بحال کریں اور اس کے لیے انہیں ’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘سے خود کو جتنا ممکن ہوسکے دور کرنا ہو گا۔
ماضی میں اگر فوج سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہے تو وہ زیادہ تر ملک کے مفاد میں کیا گیا تھا فوج کی اجتماعی دانش کو جنرل باجوہ کس طرح چینج کر سکتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اسے غیرآئینی قرار دے کر فوج کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں ؟زیادہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ابھی کل ہی جنرل باجوہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ملک میں بدترین سیاسی اور معاشی بحران ہے اور میرے نزدیک اس بحران کی وجہ فوج کا راتوں رات غیر سیاسی ہونا یا ہونے کی کوشش کرنا تھا ۔
ذرا تصور کریں کہ یہ راتوں رات پالیسی شفٹ نہ ہوتا تو کیا ملک میں آج جاری بحران پیدا ہوتا؟ پی ڈی ایم تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت کو عدم استحکام کا شکار نہیں کر پائی تھی۔ ایک فیصلہ جس کے پیچھے فوج کی اجتماعی دانش کارفرما تھی اس سے سوچے سمجھے بغیر اور درکار پلاننگ کے بغیر یکدم پیچھے ہٹنے کا نتیجہ آج ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں نکلا ہے۔
فوج سیاسی اور معاشی استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ پاکستان ہے جہاں جمہوریت نے جڑیں نہیں پکڑیں اور جہاں حکمرانوں کی کرپشن ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ نئے آرمی چیف آئی ایس آئی اور ایم آئی دونوں کے سربراہ رہ چکے ہیں اور ان کو حکمرانوں کی کرپشن کے بارے میں جتنا علم ہے کسی دوسرے چیف کو نہیں ہو سکتا ایسے حالات میں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے نہیں رہ سکتے.
سیاست میں مداخلت نہ کرنے والا ماحول وہاں ہوتا ہے جہاں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے یہاں کی سیاسی جماعتیں شخصی آمریت کی بد ترین مثال بنی ہوئی ہیں جبکہ کرپشن نظام کی رگ رگ میں رچ بس گئی ہے۔ ایسے میں قومی سلامتی کے اداروں کو حکومتی معاملات سے بالکل لاتعلق رکھنا سیاستدانوں کے جرائم کی چشم پوشی کے مترادف ہوگا ۔
جنرل عاصم منیر کو فوری طور پر ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور اولین ترین ملک سے سیاسی بحران کو ختم کرنا ہے اور اس بحران کو ختم کرنے کے لیے انہیں کردار ادا کرنا چاہیے ۔ تاہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے جو اس عمل کے دوران کی گئیں مثلا کسی ایک پارٹی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے سب کے ساتھ اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ادارے کے اندر بھی کرپشن کے خلاف جنرل راحیل شریف والا کلچر واپس لانا پڑے گا تاکہ فوج پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
نئے آرمی چیف کو اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا کہ جنرل باجوہ کے آخری تین برس کے دوران سلامتی کی صورتحال بھی بہت زیادہ خراب ہوئی ہے، کراچی میں جو امن جنرل راحیل شریف کے دور میں آیا تھا، وہ ختم ہوچکا ہے، آپریشن ضرب عضب سے جو کامیابیاں سمیٹیں گئی تھی وہ بھی ہاتھ سے آہستہ آہستہ نکل رہی ہیں، کشمیر پر بھی جنرل باجوہ کے دور کی پالیسیوں کے نتائج پاکستان کے لیے اچھے نہیں رہے۔
مزید برآں جنرل باجوہ کی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پالیسیوں پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ان کے قلیل المدتی نتائج شاید گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ہمیں بہتر لگیں لیکن کیا طویل المدتی اعتبار سے پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات میں وہ سب اقدامات ہیں جو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ہم نے اٹھائے۔ جنرل عاصم منیر ایک ایسے وقت میں آرمی چیف مقرر ہوئے جب ان کے لیے کئی محاذ پہلے سے گرم ہیں۔ یہ آسان کام نہیں ہو گا۔ تاہم اگر ملک میں سیاسی استحکام لوٹ آئے تو وہ پوری توجہ دیگر چیلنجز سے نمٹنے میں لگا سکتے ہیں۔