یہ ایک حقیقت ہے کہ سماجی علوم کی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی مغرب کی حکمرانی ہے۔ اگرچہ پہلے روس اور پھر چین نے ان شعبوں میں بہت ترقی کی ہے مگر اپنے مخصوص سیاسی نظام کے باعث سماجی علوم کو وہ بھی نظر انداز کر رہے ہیں جس کے نتائج ابھی سامنے آنے باقی ہیں۔
مسلمان تو اس میدان میں کئی دہائیاں یا شاید کئی صدیاں پیچھے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ نظریاتی دیواریں ہیں جو دینی علوم میں مہارت رکھنے والوں نے استوار کر رکھی ہیں اور جن پر لکھ دیا گیا ہے کہ انہیں عبور کرنے والوں کو فتوؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان میں سے ایک بڑی دیوار نظریہ ارتقا کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ آج بیالوجی، جینیٹکس اور نفسیات جیسے علوم کا براہ راست تعلق اسی نظریے سے جڑ چکا ہے۔ ان علوم میں جوں ہی ایک مخصوص سطح سے آگے جاتے ہیں تو نظریہ ارتقا کسی نہ کسی صورت میں سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس دیوار کو عبور کرنے پر آگہی کے وسیع میدان ہیں مگر ہم فقط اس دیوار سے اپنا سر ٹکراتے ہیں اور خود کا ہی نقصان کرتے رہتے ہیں۔
جینز کا مطالعہ تو خیر ابتدائی سطح پر ہی اس نظریے سے جڑا ہے۔ لیکن بیالوجی کی تمام ذیلی شاخیں ابتدائی درجے سے اوپر اٹھتے ہی نظریہ ارتقا سے ہم کنار ہو جاتی ہیں۔ اس نظریے کو تسلیم کیے بغیر بڑے سائنسی ترقی کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
دنیا اس وقت انسانی دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس شعبے میں ارتقا کی رفتار میں ہر گزرتی دہائی میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ موجودگی صدی کے دوران کم از کم ابتدائی سطح کے سپر ہیومن پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔
انسانی دماغ کی گتھیاں اس وقت تک نہیں سجھائی جا سکتیں جب تک نظریہ ارتقا کو تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ یہ حیرت انگیز مشین اپنی تشکیل کے دوران طویل ارتقائی عمل سے گزری ہے۔
وبائی امراض کی ویکسین تیار کرنے میں وائرس کے اس ارتقائی عمل کو سمجھنا ضروری ہے جس کے ذریعے وہ جانوروں سے نکل کر انسانی خلیوں کو شکار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس کی یہ خوفناک چھلانگ ان جینیاتی تبدیلیوں کی مرہون منت ہے جہاں نظریہ ارتقا کی حکمرانی ہے۔
انسانی عمر سے تعلق رکھنے والا کلاک بھی جینز میں ہی چھپا بیٹھا ہے۔ سائنسدان اس کے قریب پہنچ چکے ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب انسان اپنے اندر موجود فنا کی اس مشین کو فتح کر لے گا اور اس میں اپنی مرضی کا سافٹ ویئر ڈال کر انسانی عمر کو کئی سو سال تک بڑھا لے گا۔ اس شعبے میں بھی نظریہ ارتقا کارفرما ہے۔
نفسیات کی طرف آتے ہیں تو ارتقائی نفسیات کی بنیاد ہی اسی نظریے پر استوار ہے۔ یہ اپنے شعبے کی جدید ترین شکل ہے جس میں انسان بہت آگے بڑھ چکا ہے اور نفسیاتی امراض سے لے کر سماجی مسائل کو حل کرنے کی طرف گامزن ہے۔
دوسری جانب ہم ہیں کہ منہ بسورے، سر نیہواڑے کسی ضدی بچے کی طرح میں نہ مانوں کی گردان میں مصروف ہیں۔ کلیسا نے بھی یہیں رویہ اپنایا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب نے مذہب کو ہی ایک طرف رکھ دیا۔ ہماری نوجوان نسل میں جو لادینیت پھیل رہی ہے، اس کی وجہ یہی احمقانہ ضد ہے جس پر اصرار جاری رہا تو یہ جو چند ہزار یا چند لاکھ لوگ مذہب سے رخ پھیرنے کی جانب راغب ہیں، یہ کروڑوں میں ہو جائیں گے اور مذہبی طبقہ اپنی ہی جنم بھومی میں اقلیت بن کر رہ جائے گا۔
کوکا کولا اور مکہ کولا کے درمیان مقابلہ یاد کریں۔ ایک معمولی سے فارمولے کے معاملے میں بھی مسلمانوں کی “ایجاد” شکست کھا گئی حالانکہ اسے جذبہ ایمانی کا دیدہ زیب لباس بھی میسر تھا۔ ویکسین کی تیاری، خلا کا سفر، مصنوعی ذہانت وغیرہ کا تو ذکر ہی چھوڑیں، ان میدانوں میں ہم مغرب سے کوسوں پیچھے رہ گئے ہیں۔
سماجی علوم کی بات کریں تو ہمارے جدید ترین دینی مفکروں اور مغرب میں موجود مختلف سماجی علوم کے ماہرین میں بھی ایسا ہی فرق ہے۔ ہماری فکر مکہ کولا کی طرح ہے جو مغرب کی کوکا کولا کی بھونڈی نقل کے سوا کچھ نہیں جس کی عمر چند برس یا زیادہ سے زیادہ چند دہائیوں سے زیادہ نہیں ہے۔
اپنی آنکھیں کھول کر اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ مسلمان معاشروں کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ ہو یا موسیقی، ادب اور فن تعمیر ہو۔۔ یہ تمام مکہ کولا کی طرح مغرب کی نقالی پر مبنی ہیں۔ اس لیے ان تمام شعبوں کی حالت ابتر ہے۔
ہمارا کام فقط اتنا رہ گیا ہے کہ روح عصر کے تقاضوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں اور جب انہیں تسلیم کرنا ناگزیر ہو جائے تو پھر مذہب سے ہی اس کا جواز تلاش کر کے انہیں مقدس لباس پہنا دیا جائے۔