پاکستانی دانشور اور سفید فام ماضی

Date:

یورپ کا شاندار ماضی ہمارے دانشوروں کے سینوں میں پھڑپھڑاتے دل کی دھڑکنوں سے جڑا ہے۔ وہ مُڑ مُڑ کر یورپ اور امریکی تاریخ میں اٹھنے والے انقلابی سلسلے کو اس قدر حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اگر بنی نوع انسان نے جھوٹ پکڑنے کا فن نہ سیکھا ہوتا تو انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کے نپولین کی خلاف جنگوں میں شرکت کا دعویٰ کردینا تھا ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یورپ اور امریکا میں انقلاب کا باعث بننے والے واقعات اگر پاکستان میں رونما ہوتے تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ مثلا 1765 کا سٹیمپ ایکٹ جس  کے تحت برطانوی حکام نے امریکیوں سے دفتری کاغذات پر ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کی تھی امریکا میں انقلاب کا سبب بنا۔ بظاہر تو یہ قانون اتنا برا نہیں لگتا کہ اس کی وجہ سےعوام میں انقلابی روح بیدار ہو جائے۔ مگر حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ یا پھر باسٹن ٹی پارٹی کے متعلق پڑھ لیں جس میں امریکیوں نے ٹی ایکٹ 1773 کے ردعمل میں چائے کے صندوق پانی میں بہا دیے تھے۔ ایک پاکستانی ان قوانین کو 2022 میں پڑھ کر اتنا ہی حیران ہوگا جتنا ایک امریکی 1773 میں ہوتا ہو گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس نوعیت کی چیز انقلاب کیسے لا سکتی ہے جب کہ امریکی محو حیرت تھا کہ اس کی وجہ سے انقلاب کیونکر نہیں آ سکتا۔

اس سب کے باوجود پاکستانی دانشوروں کو عقلی بنجرپن اور اخلاقی بد عنوانی سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سفید فام ماضی کا لافانی سحر انہیں پاکستانی معاشرے پر تنقید کرنے پر مجبور تو کرتا ہے مگر ان مساٰئل کا حل بتانے میں مدد نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں وہ عناصر نہیں پائے جاتے جن کے باعث امریکی و یورپی معاشروں میں بادشاہت کے خلاف جدوجہد ہوئی اور جمہوریت پروان چڑھی تھی۔ اس وجہ سے پاکستانی معاشرے پر تنقید نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ ناگزیر اور بعض صورتوں میں واجب بھی ہے۔ تاہم اُن معاشروں کی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمارے دانشور اُن بنیادی عناصر کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں جن کے باعث ان معاشروں میں جمہوری اقدار کی بالادستی قائم ہوئی تھی۔

ذیل میں بغیر کسی خاص ترتیب کے میں نے تین ایسے عناصر کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت ناکام ہو رہی ہے۔ یہ قاری پر ہے کہ اس کے نزدیک ان تین میں سب سے اہم کیا ہے۔ تاہم ان تمام وجوہات کو پڑھتے وقت پاکستانی دانشوروں کی اخلاقی بدعنوانی اپنے ذہنوں میں رکھنا لازمی ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ روشن خیالی کے بغیر جمہوریت ناممکن ہے۔ روشن خیالی دراصل روایات کے بجائے عقل اور انفرادیت کی بالادستی کا نام ہے۔ ہمارے دانشور حضرات عالی شان کیفیز میں بیٹھ کر غیر ضروری حد تک مہنگی کافی کے چسکے لیتے ہوئے اس عام آدمی کے مسائل پر بحث کرتے ہیں جو معاشرے میں اکثریت رکھتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس اکثریت سے جڑے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا جائے، یہ لوگ چسکیاں لیتے ہوئے ان مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں جو عوام الناس کی اکثریت سے متعلق نہیں ہوتے۔

انہیں چاہیے کہ وہ لوگوں کو روشن خیالی کی طرف لائیں۔ اس وقت ملک میں سیاست، معیشت اور سماجی مسائل پر ہونے والی گفتگو چھوٹی سی اشرافیہ تک محدود ہے۔ فرانسیسی انقلاب کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بگڑتے ہوئے حالات پر بحث مباحثے صرف اشرافیہ تک محدود نہیں تھے بلکہ یہ یورپی معاشرے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ گفتگو صرف کافی ہاؤس کی دیواروں میں بیٹھی اشرافیہ نہیں کر رہی تھی بلکہ اس کی گونج ہر طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ آخر کب ہمارے دانشور صرف تنقید کرنے اور مذاق اڑانے کے بجائے عام آدمی کی زبان میں نئے تصورات بیان کرنا شروع کریں گے؟ ایسے ملک میں جمہوریت آنا ممکن نہیں جہاں دانشور ایسے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں جس تک رسائی کا عام لوگ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

یورپ کے عہد روشن خیالی کا نام سن کر ہمارے دانشوروں کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ یہ عہد اس وجہ سے وجود پذیر ہوا تھا کیونکہ ڈیکارٹ، لاک، والٹیئر، کانٹ، گوئٹے اور روسو جیسے دماغوں نے انفرادی طور پر معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اگر یہ لوگ موجودہ پاکستان میں پیدا ہوتے تو جاگیرداری کے بل پر قائم ایک خاص سیاسی جماعت انہیں خرید چکی ہوتی اور وہ وراثتی سیاست کے حق میں جواز پیدا کرنے میں لگے ہوتے۔ کیا یہ حیران کُن بات نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے سب سے روشن دماغ اور لبرل حضرات کے خیالات ایک ایسی سیاسی جماعت کے ںظریات سے ہم آہنگ ہیں جو جاگیرداری پر چل رہی ہے؟ 1789 کے فرانسیسی انقلاب نے جمہوریت کے بہت سے بنیادی اصولوں کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ ان میں سے ایک جاگیرداری کا خاتمہ بھی تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی یہ دوسری وجہ جاگیرداری نظام اور اس کی اقدار ہیں۔

اس بات کی تفہیم کے لیے کوئی غیرمعمولی ذہانت درکار نہیں ہے کہ جاگیرداری جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیوں ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے دماغ کا تیز ہونا ہرگز ضروری نہیں کہ ایک وڈیرے کی جاگیر پہ رہنے والے کیوں اس کی مرضی کے خلاف کسی کو ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ تاہم اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات جب روشن خیالی کا ذکر کرتے ہیں تو اس بات سے مکمل اغماض برتتے ہیں کہ یورپ کے روشن خیالی کی جانب سفر میں جاگیرداری کے خاتمے نے کتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ وہ سیاستدان جو خود کو مارکس کی آل اولاد سمجھتے ہیں وہ بھی پاکستان کے مشہور جاگیرداروں کے ساتھ اٹھتے بیٹھے ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے!

عہد روشن خیالی کے لکھاریوں نے یہ جانتے ہوئے کہ جاگیرداری اس دور کا ایک اہم حصہ تھی، قرون وسطی کو تاریک دور قرار دیا تھا ۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ جنہیں آج ہاری اور کسان کا ساتھ دینا چاہیے وہ جاگیراروں اور سرداروں کے ساتھ کھڑے ہیں؟ اگر میری یادداشت ساتھ دے تو میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے ذہن میں کسی دانشور کا نام نہیں آتا جس نے ملک میں جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کی ہو۔ البتہ جاگیرداری کے حق میں بات کرنے پر بہت سے دانشور دماغ میں آتے ہیں۔ اگر ہم بہت زیادہ رجعت پسند ہو جائیں اور یہ سمجھیں کہ جاگیرداری پاکستان سے رخصت ہو چکی ہے تو ایک نظر باوردی اشرافیہ، نوکر شاہی اور سیاست دانوں پر ڈال لیں تو خوابوں سے حقیقت کا سفر باآسانی طے ہو سکتا ہے۔

مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ملک کے ہر شخص کے پاس معاشرتی مسائل کا حل ہے مگر ملک کی پوری تاریخ میں ایک بھی اچھا ماہر سماجیات پیدا نہیں ہو سکا۔ اچھے ماہر سماجیات کی کمی نے ہمیں شاید اچھے سائنسدانون کی کمی سے بھی زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ تیسرا پہلو ہے جس کو ہمارے دانشور ملکی مسائل کا تجزیہ کرتے وقت ڈکار جاتے ہیں۔

روایات پر مبنی ہماری غیر جمہوری خاندانی اقدار ایسے اشخاص کو جنم دیتی ہیں جو اپنے ہی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مگر اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ کیا غیر فطری بچپن سے گزر کر کوئی انسان نارمل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایسے ملک میں جمہوری اقدار کیسے پنپ سکتی ہیں جس کی ہر آنے والی نسل کو انفرادیت کا پتہ ہو اور نہ ہی ذاتی زندگی کے احترام کا اسے علم ہو۔ جب خاندانی سطح پر ذاتی زندگی کا احترام نہیں کیا جائے گا تو عقل کی نشوونما کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟ ان روایات کی موت ہی روشن خیالی کو جنم دے سکتی ہے۔

اس لیے جب معاشرہ بالغ افراد کو اپنے ذاتی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا تو سماجی ڈھانچے میں ایسے سست دماغ اٹک جاتے ہیں جو خود سے فیصلے لینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص مصنوعی رہنماؤں میں سے نسبتاً کم برے فرد کے انتخاب کے وقت بھی دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔

لیکن کیا اس سب سے ہمارے دانشوروں کو کوئی فرق پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ایک بد عنوان سیاستدان نے اپنی بدعنوانی کو لوگوں کے لیے معمول کی بات بنانا ہوتا ہے۔ اور یہ کام معاشرے کے دانشوروں سے لیا جاتا ہے جو پیسے لے کر بدعنوانی کے لیے عقلی جواز پیدا کر دیتے ہیں اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ کرپشن اتنی بری چیز نہیں جتنی کہ تم سمجھ رہے ہو۔ اس لیے اگر بچپن سے ہی لوگوں کو اپنے فیصلے لینے کا حق دے دیا جائے اور ان فیصلوں کو معاشرہ نہ صرف تسلیم کرے بلکہ ان کی عزت بھی کرے تو شاید لوگوں کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں رہے گا جتنا کہ اب ہے اور معاشرہ اتنی تیزی سے اخلاقی پستی کی طرف نہیں بڑھے گا۔

تو کیا ہم پاکستان میں بہتری کی تمام تر امیدیں ترک کر دیں؟ کیا ہمیں اناج سے لے کر نظریہ اور دانش کچھ بھی خالص نہیں عطا کیا گیا؟ پاکستان میں جاری سیاسی واقعات کے تناظر میں یہی کہوں گا کہ ابھی کچھ امید باقی ہے۔ اس امید کا سہرا بھی بلا شک و شبہ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔ یہ بہت خوبصورت نظارہ ہوتا ہے جب جھریوں سے بھرے معمر دانشور جمہوریت کے نام پر کرپشن اور موروثی سیاست کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور اس منافقت کے باعث نوجوانوں کے ہاتھوں اپنی عزت کرا رہے ہوتے ہیں۔  ان نظاروں کے باعث اس اندھیر نگری میں امید کی کرن دکھائی دینے لگتی ہے۔ جیسے نون میم راشد نے کہا تھا کہ تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے۔۔

Share post:

Subscribe

Popular

More like this
Related