ایک سائنسدان کا لیکچر سن رہا تھا، وہ بتا رہا تھا کہ ہمارے دل دھڑکنے کے قابل اس لیے ہوئے ہیں کہ ہمارے خون میں ہیموگلوبن موجود ہے، اس ہیموگلوبن میں ایک چھوٹا سا مالیکیول پایا جاتا ہے جسے ہیمی بی کہتے ہیں۔ ہیمی بی مالیکیول کا وجود لوہے کے ایک ایٹم کا مرہون منت ہے۔ یہی مالیکیول ہمیں آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت دیتا ہے جو پھر ہماری پوری رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ گھومتی رہتی ہے۔
اگر لوہے کا یہ ایٹم موجود نہ ہو تو ہیمی بی کی تخلیق نہیں ہو سکتی اور اگر ہیمی بی نہ ہو تو ہیموگلوبن کا مالیکیول وجود میں نہیں آ سکتا۔ گویا ہمارے دل لوہے کے ان ایٹمز کی موجودگی کے باعث دھڑکنے کے قابل ہو سکے ہیں اور انسان زندہ رہنے کی اہلیت حاصل کر سکا ہے۔
جب کائنات نے جنم لیا تھا تو اس میں لوہا موجود نہیں تھا۔ لوہے کی تخلیق کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے بڑے بڑے ستاروں کا آپس میں ٹکرانا۔ اربوں سال تک کائنات میں کہکشائیں آپس میں ٹکراتی رہیں، ان کے ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوتے رہے اور لوہا تخلیق ہوتا رہا۔ آج لوہے کا کوئی بھی اوزار آپ دیکھتے ہیں تو وہ اربوں برس پہلے اسی ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ یہی لوہا ہماری شریانوں میں گردش کر رہا ہے اور ہمیں آکسیجن جذب کرنے اور اس کے نتیجے میں دل کو زندہ رکھنے کی اہلیت فراہم کرتا ہے۔
ایک اور منظر نامے کو دیکھتے ہیں۔
تین ارب سال پہلے زمین پر سانس لینا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت فضا میں آکسیجن موجود نہیں تھی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ البتہ ہر طرف موجود تھی۔ اس وقت صرف ایک خلیے پر مشتمل خاص قسم کے بیکٹیریا زندہ رہ سکتے تھے، وہ بھی سمندر کے اندر تاریک گہرائی میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھے۔ پھر کسی وجہ سے ایک خلیے میں انقلابی تبدیلی آئی اور اس نے فوٹوسنتھیسس کا عمل شروع کیا جس میں وہ سورج کی روشنی کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کرنے لگا۔
آکسیجن خارج کرنے والی اس مخلوق کی تعداد پہلے سمندر میں بڑھتی گئی، پھر دھیرے دھیرے یہ زمین پر پھیلتے گئے۔ تیسرے مرحلے پر ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ فضا میں ہر سو پھیلی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک بڑا حصہ آکسیجن میں تبدیل ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں اوزون کی سطح نے جنم لیا جس کے بعد زمین اس قابل ہوئی کہ اس میں پیچیدہ مخلوق جنم لے سکے۔
آج سے تقریباً نوے کروڑ سال پہلے آکسیجن نے فضا میں اکٹھا ہونا شروع کیا اور 60 کروڑ سال پہلے اوزون کی تہہ مکمل ہوئی۔ اس کے بعد پھر سے سمندر میں ایک سے زیادہ خلیوں پر مشتمل مخلوق پیدا ہوئی جو بعد ازاں کرہ ارض پر پھیلتی گئی۔
آج جب ہم سانس لیتے ہیں تو اس کی وجہ وہ پودے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کی یہ صلاحیت اسی سادہ مخلوق کی مرہون منت ہے جنہوں نے ڈھائی ارب سال پہلے زمین پر آکسیجن کو پھیلانا شروع کیا تھا۔
یہ بیکٹیریا جنم لیتے تھے اور چند ہفتوں بعد مر جاتے تھے۔ اگر وہ سوچ سکتے تو ان کے ذہن میں یہی خیال ہوتا کہ ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں، فقط چند ہفتے سمندر کے تاریک کونوں میں تیرتے رہتے ہیں اور پھر ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو کی کروڑوں اربوں کی تعداد میں دی گئی ان قربانیوں کی بدولت پوری زمین پر رنگارنگ قسم کی مخلوق زندہ ہے۔
انسان کو بھی بعض تاریک لمحوں میں یوں لگتا ہے جیسے زندگی بے مصرف ہو گئی ہے، خواب ادھورے رہ جانے کی کسک، محبتوں میں ناکامی کا دکھ، پیسہ کمانے میں ناکامی، رشتوں سے شکوے۔۔ ایک طویل فہرست ہے جو زندگی سے معنی ختم کر دیتی ہے۔
اگر بے جان لوہے کا ایٹم دل کی دھڑکن جاری رکھنے کی ضمانت بن سکتا ہے اور ایک خلیے پر مشتمل بیکٹیریا زمین پر رنگارنگ مخلوق کے لیے ماحول سازگار بنا سکتا ہے تو انسان کی زندگی کس طرح بے مصرف ہو سکتی ہے جو ایک پیچیدہ قسم کی مخلوق ہے اور جسے اشرف المخلوقات کا لقب ملا ہوا ہے۔
یہ تو ممکن ہے کہ انسان کو مایوس لمحوں میں اپنا وجود لایعنی نظر آئے لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کا وجود بغیر مقصد کے پیدا کیا گیا ہو۔ سائنس صرف کائنات کی جستجو کا نام نہیں ہے، اس کے انکشافات میں ایسے ایسے راز پوشیدہ ہیں جو ہمیں اپنے وجود کی اہمیت کا بار بار احساس دلاتے ہیں۔
کسی بھی شخص کی زندگی بے معنی نہیں ہے۔ کائناتی سکیم میں ہر فرد کا ایک اہم کردار ہے۔ سائنس کی ہر تحقیق اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور ہر نیا انکشاف اسی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ مایوس لمحوں میں اگر یہ بات خود کو یاد دلائی جائے تو ان اداسیوں کا مداوا ممکن ہے جو ہماری ذات کی گہرائیوں میں پنپتی رہتی ہیں اور ہمارے وجود کو گھیر لیتی ہیں۔